ٹائم اور کلنڈر

ايمان اور شرم وحياء كا تعلق

 ایمان اور شرم وحیاء کا تعلق سب پہلے ایمان کی تعریف جان لیتے ہیں اس کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں: ایمان کہتےہیں : دل کی تصدیق , زبان سے اقرار اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنے کو۔ کس چیز کی تصدیق ؟ کس چیز کا اقرار اور کیسا عمل؟ جی ہاں کلمہ توحید لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کی دل سے تصدیق کرنا , دل سے اس بات کاپختہ یقین رکھنا اور تصدیق کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ دل میں یقین رکھنے اور تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ زبان سے اقرار کرنا بھی ضروری ہے اس لئے کہ محض دل سے تصدیق کرناایمان کے لئے کافی نہیں ہے کیوں کہ دل سے بہت سے کفار بھی محمد ﷺ کو اللہ کے سچے نبی ورسول مانتے تھے لیکن خاندانی عصبیت زبان سے اقرار کرنے کی راہ میں حائل ہو گئی جیسے آپ ﷺ کے چچا ابو طالب دل سے مانتے تھے میرے بھتیجے اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور زبان سے اس چیز کی صراحت بھی کرتے تھے مگر کلمہ کا زبان سے اقرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے ہی یہودی بھی اللہ کے نبی ﷺ کی نبوت ورسالت پر اس قدر یقین رکھتے تھےکہ ویسا یقین وہ اپنی اولاد کے اولاد ہونے پر نہیں رکھتے تھے یعنی جتنا وہ اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اس سے زیادہ نبی ﷺ کی نبوت ورسالت کو پہچانتے تھے۔ دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کے بعد اعضاء وجوارح سے عمل کرنا بھی ضروری ہے کیوں کہ "دل کی تصدیق" اور "زبان سے اقرار" کی حقیقت کو اعمال ہی ثابت کرتے ہیں , لہذا ایسا ایمان جو ہمیں جہنم سے نجات دلا سکے اس کے لئے ایمان میں مذکورہ تینوں امور کا ہونا ضروری ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اعمال‘ ایمان میں داخل نہیں ہیں یا اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ایسے لوگوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اللہ ورسول پرایمان لاتاہوں اوروہ زبان سے کلمہ پڑھتا ہے لیکن نماز, روزہ, زکوۃ,حج جیسے عظیم اعمال کا انکار کرتا ہے تو کیا وہ مؤمن ہوگا؟ مؤمن تو دور کی بات کیا وہ مسلمان بھی ہوگا؟ ہر گز نہیں۔ معلوم ہوا کہ عمل ایمان میں داخل ہے عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا , کوئی شخص جتنا زیادہ نیک عمل کرے گا اتناہی اس کے ایمان میں اضافہ ہوگا , اور جتنا زیادہ نیک عمل میں حسن پیدا ہوگا اتنا ہی ایمان میں بھی اضافہ ہوگا , جتنی زیادہ اطاعت وفرمانبرداری ہوگی اتنی ہی ایمان میں بھی بڑھوتری ہوگی,اور گناہوں پر قدرت وطاقت کے باوجود جتنی زیادہ ان سےدوری ہوگی اتنی ہی ایمان سے قربت اور اس میں بڑھوتری ہوگی ۔ اس کے برخلاف جتنی اطاعت وفرمانبردای میں کمی کوتاہی ہوگی اتنی ہی ایمان میں بھی کمی ہوگی اور جتنی زیادہ معصیت وگناہوں میں زیادتی ہوگی اتنی ہی ایمان میں کمی پیدا ہوگی اور ہاں اگر معصیت شرک وکفر کی نوعیت کی ہے تو ایسی صورت میں نہ صرف کمالِ ایمان میں کمی ہوگی بلکہ اصلِ ایمان بھی جاتا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ایمان کی دو حالتیں ہیں : اول: اصلِ ایمان۔ دوم: کمالِ ایمان۔ "اصلِ ایمان"ایمان کی سب سے ادنى حد ہے جو ایمان کے سب سے افضل درجہ کلمہ شہادت کی تصدیق واقرار سے پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس کے بغیر ایمان کا کوئی وجود نہیں , اسی کے ذریعہ ایمان کے زمرے میں داخل ہوتا ہے , اور اگر اسی ایمان پر اسی کی موت آجائے تو ہمیشگی کی جہنم سے بچ جاتا ہے , اسی ایمان کو ایمانِ مجمل اور مطلقِ ایمان بھی کہا جاتا ہے , اس کے بالمقابل کو کفر کہا جاتا ہے, اصلِ ایمان کمی اور نقص کو قبول نہیں کرتا یعنی اس میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی "کمالِ ایمان"ایمان کے بقیہ شعبوں سے پیدا ہوتا ہے یعنی بالفاظ دیگر نیک اعمال کے بجا لانے اور برے اعمال کے ترک کرنے سے وجود میں آتا ہے ۔واجبات ومستحبات کو بجا لانے اور محرمات ومکروہات کو ترک کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نیز اعمال میں اخلاص اور عمدگی سے بھی کمالِ ایمان میں اضافہ ہوتا ہے جتنا زیادہ اعمال میں اخلاص ہوگااتنا ہی کمالِ ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اعمال خواہ دلی ہوں یا جسمانی , ظاہری ہوں یا باطنی سب کے سب ایمان میں کمی یا اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔ اعمال بھی ایمان میں داخل ہیں اور اعمال کی وجہ سے ایمان میں کمی زیادتی پیدا ہوتی ہے اس کے بے شمار ادلہ کتاب وسنت میں موجود ہیں چند ایک کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ ، أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ ، شُعْبَةً ، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ. ترجمہ: .... اس حدیث میں ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں بیان کی گئی ہیں , سب سے افضل شاخ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو قرار دیا گیا ہے , جو کہ زبان کا عمل ہے, اور سب سے ادنى راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹا دینے کو قرار دیا گیا ہے جو کہ ایک جسمانی عمل ہے, اور شرم وحیا کو بھی ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے جو کہ دل کا عمل ہے۔ معلوم ہوا کہ عمل بھی ایمان کا حصہ ہے عمل بھی ایمان میں داخل ہے, چونکہ مذکورہ حدیث میں تینوں قسم کے اعمال کا شمار ایمان کے زمرے میں ہوا ہے یا یوں کہیں کہ تصدیق بالجنان اور اقرار باللسان کے ساتھ ساتھ عمل بالجوارح کا بھی ذکر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اہل سنت والجماعت نے مذکورہ تینوں چیزوں کو ایمان کی تعریف میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں سب سے افضل ایمان کی شاخ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو قرار دیا ہے جو کہ اصل ایمان یا مجمل ایمان ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کے دور کرنے کو ایمان کی سب سے ادنى شاخ قرار دیا ہے۔ افضل اور ادنى شاخ کے ذکر کرنے کے بعد حیاء ہی کو بالخصوص کیوں ذکر کیا گیا ہے؟ اس لئے کہ حیاء ہر خیر کی کنجی ہے۔ عمران بن حصین سے روایت ہے کہ (قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ قَالَ : أَوْ قَالَ : الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ.) رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شرم وحیا خیر ہے مکمل طور پر, یا حیا پوری کی پوری خیر وبھلائی کا نام ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس لئے کہ حیاء ایمان ہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَيَاءُ وَالْإِيمَانُ قُرِنَا جَمِيعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الْآخَرُ " . حضرت ابن عمر  روایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حیا اور ایمان دونوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے دونوں میں سے کوئی بھی گیا تو دوسرا بھی اس کے ساتھ چلا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ حیاء بہترین زینت ہے۔ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: "مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ". انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز میں بھی بےحیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے“۔ رواہ الترمذی وابن ماجہ وصححہ الالبانی۔ معلوم ہوا کہ انسان کے پاس زیب وزینت اختیار کرنے کے لئے حیا سے زیادہ خوبصورت اور بہترین چیز کوئی نہیں ہے۔ اس لئے کہ حیاء ایسا اخلاق ہے جس سےاللہ تعالى محبت کرتا ہے۔ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ،‏‏‏‏ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ لِلْأَشَجِّ عبد القیس الْعَصَرِيِّ:‏‏‏‏ "إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ:‏‏‏‏ الْحِلْمَ وَالْحَيَاءَ". عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عصری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں: ایک حلم (بردبادی) اور دوسری حیاء“۔ رواہ ابن ماجہ وغیرہ وصححہ الالبانی۔ بعض روایتوں میں حلم واناۃ کا ذکر ہے۔ اس لئے کہ حیاء جنت کے طرف لے جانے والا عمل ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ "، ‏ (صحیح) ترمذی وابن ماجہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں گے اور بےحیائی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے“ ۱؎۔ وضاحت: ۱؎: جس طرح ایمان صاحب ایمان کو گناہوں سے روکنے کا سبب ہے، اسی طرح حیاء انسان کو معصیت اور گناہوں سے بچاتا ہے، بلکہ اس کے لیے ایک طرح کی ڈھال ہے، اسی وجہ سے حیاء کو ایمان کا جزء کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ حیاء اسلام کا خصوصی اخلاق ہے۔ عن انس ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "إن لكل دين خلقا،‏‏‏‏ وخلق الإسلام الحياء". انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے“۔ قال الشيخ الألباني: حسن اس لیے کہ حیاء تمام انبیاء کی شریعت ہے۔ عن أَبی مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ". صحیح البخاری ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے۔“ اس لئے کہ حیاء اللہ کا حق ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ. البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“ ۱؎، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے“۔ وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ۲؎: یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا، اور نہ ہی اپنی زبان، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔ ۳؎: یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو، اسی طرح شرمگاہ، ہاتھ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں