ٹائم اور کلنڈر

ایمان کا ذائقہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایمان کا ذائقہ
علی محمدبن فتح محمد محمدی                                                                                   جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام على من لا نبی بعدہ, أما بعد:
 لفظِ ذائقہ زبان پر آتے اور کان کے پردوں سے ٹکراتے ہی  تصوّر وتخیّل کی دنیا میں انواع واقسام کے کھانے, رنگ برنگی مٹھائیوں کے مخصوص ذائقے گردش کرنے لگتے ہیں, حالاں کہ اس لفظ کے حدود اربعہ اتنے محدود بھی نہیں ہیں بلکہ یہ تو اپنی وسعتوں میں بہت سارےمعنوی وحِسّي  معنوں کو سمیٹے ہوئےہے, آئیے پہلے ہم اس لفظ کے معنی معلوم کرتےہیں , پھر ایمان کے معنی  اور اسکے ذائقہ پر نظر ڈالتے ہیں۔
ذائقہ کا مفہوم :  ذوق وذائقہ کا لفظ لغت میں مزہ چکھنے کے لئے استعمال ہوتاہے , کہا جاتا ہے"ذواقہ طیّب" یعنى اس کا ذائقہ اچھا ہے, مولانا وحید الزماں کیرانوی قاموس الوحید میں اس کا معنى یوں بیان کرتے ہیں: الذوق: حواس خمسہ میں سے ایک حاسہ "چکھنے کی قوت" جسے قدرت نےمنہ میں پیدا کیا ہےاور اس کا مرکز زبان ہے, دوسرا معنى: ادب وفن میں ایسی مہارت یا ایسی معنوی وحِسّی قوت جو اچھی وبری چیز کو پرکھ کر انبساط وانقباض کی کیفیت پیدا کرتی ہے,علاوہ ازیں اصابت رائے, خواہش, سلیقہ ودیگر معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
آئیے اب قرآن وحدیث کے بعض نصوص سے اس کے معنی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالى ہے:
         ﯦﯧ                  (سورة الحشر: 15)۔ ترجمہ: وہ  (کفار قریش) بھی انہی(یہود بنی قینقاع) کی طرح ہیں جو ان سے کچھ ہی مدت قبل اپنے برے کرتوتوں کا مزہ چکھ چکے ہیں اور انکےلئے دردناک عذاب ہے, اور ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے:                                      (سورة التغابن :5)۔ ترجمہ:کیا تم تک ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچی ہیں جنہوں نے پہلے زمانوں میں کفر کیا , تو انہوں نے اپنے کئے کی سزا  چکھ لی, اور آخرت میں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ مذکورہ دونوں آیتوں میں ذائقہ کا لفظ عذاب کا مزہ چکھنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔
اب آئیے حدیث میں اس کا معنى دیکھتے ہیں: عن العباس بن عبد المطلب أنه سمع رسول الله r يقول :« ذَاقَ طَعمُ الإِيْمَانَ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإسْلَامِ دِيْناً وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلاً ». (صحيح مسلم: ح: 160).یعنی جو اللہ کو رب مان کر , اسلام کو دین مان کر, اور محمد  کو رسول مان کر راضی ہوا , اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔اس حدیث میں ایمان کا مزہ چکھنے کے لئے ذائقہ کا لفظ استعمال ہوا۔ معلوم ہوا کہ مزہ چکھنا نہ صرف زبان سے ہوتا ہے بلکہ معنوی اور حِسّی طور بھی ہوتا ہے۔
ایمان کا مفہوم : ذائقہ کےمعنی ومفہوم معلوم کرنے کے بعد آئیےرسول اللہ  کی زبان مبارک سے ایمان کامفہوم معلوم کرتےہیں جب فرشتوں کے سردارجبریل علیہ السلام نے پوچھا  : مَا الْإِیْمَانُ؟ کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا  : (الإِیْمَانُ أنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرَّہِ ): کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ, اس کے فرشتوں, اس کی کتابوں, اس کے رسولوں, آخرت کے دن, اور اچھی بری تقدیر پر ایمان  ویقین رکھو.
یہ تو ہوا ایمان کا مفہوم اور  اس کے ارکان, لیکن ظاہر ہے اس پر عمل اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس کے لغوی واصطلاحی معنی کو سمجھیں, لغت میں ایمان کہتے ہیں اقرار واعتراف کو, اور اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں : دل سےتصدیق جازم و یقینِ کامل , اور زبان سے اقرار, اورعمل بالجوارج ۔ اور اس اصطلاحی  معنى کا لغوی معنى  بھی متقاضی ہے کیوں کہ اقرار تقاضہ کرتا ہے یقین کا, اور یہ دونوں-  یعنی یقین واقرار-  متقاضی ہیں عمل  کا, اس کو ہم ایک مثال کے ذریعہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں:
مثلاً خدا  نہ خواستہ کسی کے مکان میں آگ لک جائے, صاحبِ مکان کو کامل یقین و اعتراف ہے کہ پانی سے اس آگ کو بجھایا جا سکتا ہے, تو کیا اس کا یقین واعتراف اس آگ کو بجھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں, بلکہ اسے اس آگ کو بجھانے کے لئے اپنے اعضاء  کو  حرکت میں لانا ہوگا تبھی جاکر اس آگ کی تباہی  وبربادی سے بچ سکتا ہے, اس طرح کی سینکڑوں  مثالیں ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایمان ہے جو یقین واعتراف کے ساتھ ساتھ عمل کو بھی چاہتا ہے۔
بالکل اسی طرح اگر ہمارا اللہ پر کامل یقین وایمان ہے تو ہمیں اس کی نافرمانی سے ڈرنا چاہئے, اس کے عذاب  سے خوف کھانا  چاہئے, اس کے اوامر کو بجا لا کر , نواہی سے اجتناب کرنا چاہئے, ورنہ ہمارا دعوىء ایمان ناقص ہے, یقین سچا نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ہمارا ایمان  ویقین ہے اس کے فرشتوں پر, تو ہم ہرگز ایسا کام نہیں کریں گےکہ جن سے ہمارا نامہء اعمال سیاہ ہو, کیوں کہ کراماً کاتبین ہمارے ہر عمل کو نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہماراایمان و یقین ہےاللہ کی کتابوں پر خصوصاً آخری  کتاب قرآن کریم پر , تو ہم کو اس میں وارد احکامات پر عمل کرنا ہوگا, ورنہ نجات ممکن نہیں۔ اسی طرح اگر ہمارا ایمان ہے اس کے رسولوں پرخصوصاً جناب آخر الزماں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی   r  پر, تو ہم کو آپ کے فرمودات پر عمل پیرا ہو کر , آپ کی زندگی کو  اپنے لئے اسوہ بنانا ہوگا۔ اسی طرح اگر ہماراایمان ہے آخرت کے دن قیامت پر کہ جس دن ہم کو اپنے کئے ہوئے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا,تو ہم کو اس کے لئے تیاری کرنی ہوگی, اس دن کے عذاب سے بچنےکے لئے اسی دنیا میں سامان تیار کرنا ہوگا , ورنہ اس دن مایوسی کے سواء کچھ ہاتھ نہ آئےگا۔ اسی طرح اگر ہمارا ایمان ہے اس کی  اچھی  بری تقدیر پر, تو ہم کو مصیبت وپریشانی میں مایوسی و ناامیدی سے دور ہٹ کر صبر وتحمل  کا دامن پکڑنا ہوگا۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ایمان کا معنى ومفہوم واضح ہو گیا ہوگا, اب ہم ایمان کے ذائقہ کی طرف آتے ہیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے کڑوا, میٹھا, تیکھا یا کچھ اور؟
یقیناً یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اندھیرا نہ ہو تو اجالے کی کوئی اہمیت نہیں, بالکل اسی طرح اگر کڑوا ذائقہ نہ ہو تو میٹھے ذائقہ کا کوئی مزہ نہیں, بلا شبہ ایمان کا ذائقہ تو شیریں اور سب سے میٹھا ہوتا ہے مگر اسے حاصل کرنے کے لئے بہت ساری کڑواہٹوں اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح شہد کی مکھی خاردار جھاڑیوں میں لگے ہوئے پھولوں سے عرق نکال کر اسے شہد بناتی ہے ایسا شیریں شہد کہ جس ذائقہ کے ذریعہ آب کوثرکے ذائقہ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے, اسی طرح ایک مومن بھی ایمان کا ذائقہ حاصل کرنے کے لئے دنیا کی خاردار جھاڑیوں سے گزرتا ہے, اور اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے باطل معبودان کو ٹھکرا کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر اسلام کو  نہ صرف دین ماننے کے لئے راضی ہوتا ہے بلکہ اس پر اپنی جان ومال کو فدا کرنے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔  حضرت محمد  -فداہ أبی وأمی- کو  نہ صرف اپنا آخری نبی ورسول ماننے کے لئے راضی ہوتا ہے بلکہ انہیں اپنی جان مال اولاد ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کو آپ نے مختصر الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے: « ذَاقَ طَعمُ الإِيْمَانَ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإسْلَامِ دِيْناً وَبِمُحَمَّدٍ رَّسُوْلاً » (رواه مسلم عن عباس بن عبد المطلب، ح: 160).یعنی جو اللہ کو رب مان کر , اسلام کو دین مان کر, اور محمد  کو رسول مان کر راضی ہوا , اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔
یقیناً وہ شخص جو  مذکورہ بالا تینوں چیزوں سے راضی ہوا دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اس کا قدم چومے گی,  کیوں کہ یہی وہ تین چیزیں ہیں جن پر ایمان لا کر ایک بندہء مومن دنیا میں  اپنی روح کو غذا پہنچاتا ہے, دل کو تسکین دلاتا ہے, آنکھوں میں ٹھنڈک اور جسم کو راحت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اور یہی وہ تین چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل پہ پوچھ گچھ ہوگی کہ( مَنْ رَبُّکَ؟) تیرا رب کون ہے؟  (مَا دِیْنُکَ؟)  تیرا دین کیا ہے؟ ( مَنْ نَبِیَّکَ؟)  تمہارے نبی کون ہیں؟ جو دنیا میں ان تینوں چیزوں سے راضی ہوا ہوگا وہ آخرت کی اس منزل پہ بھی ضرور کامیاب ہوگا, اور جس نے یہ منزل پار کر لی اس کی بقیہ تمام منزلیں آسان تر ہوتی چلی جائیں گیں اور جنت اس کے لئے واجب ہو جائے گی, عن أبى سعيد الخدري أنَّ رسولَ الله r قال « يا أبا سعيد , مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وبِالإِسْلَامِ دِيْناً وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِيًّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّة »... الحديث. ترجمہ: صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک نے ارشاد فرمایا: اے ابو سعید جو شخص اللہ کو رب مان کر, اسلام کو دین مان کر, محمد  ﷺ کو نبی مان کر راضی ہوا,  اس کےلئے جنت واجب ہے۔الخ (صحيح مسلم ، ح:4987)
آیئے اب ہم اُن لوگوں  کے ذریعہ ایمان کا اصلی ذائقہ معلوم کریں کہ جنہوں نے واقعی اس ذائقہ کو چکھا ہے, صحابی رسول اصیرم عمرو بن ثابت بن وقیش کا واقعہ سنئے وہ غزوہء أحد کے دن اسلام قبول کرتے ہیں اور اسی دن دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں, امام احمد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ وہ آدمی کون ہے جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی لیکن جنت میں داخل ہوا؟ لوگوں سے جب جواب نہیں بنا تو انہیں سے پوچھا, تو آپ نے فرمایا: وہ اصیرم ہے, اس حدیث کو ابن حجر نے حسن کہا ہے.
ایمان قبول کرنے کے بعد وہ فوراً جہاد میں شریک ہو گئے اور انہیں کسی نماز کا وقت نہ ملا, اور اللہ کی راہ  میں قربان ہو گئے۔
صحابی رسول سعد ابن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بڑے بہادر صحابی تھے, یہ بھی غزوہء احد میں بڑی جاں فشانی سے کفار سے جہاد کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوئے, یہ وہ صحابی ہیں کہ جنہوں نے دنیا  ہی میں جنت کی خوشبو سونگھی تھی۔
حضرت عمیر ابن الحمام کو دیکھئے جوکھانے کے لئے ہاتھ میں کھجور لئے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا  (قوموا للجنۃ عرضہا السموات والارض)  اس جنت کے لئے کھڑے ہو جاؤ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر  ہے, تو اسی وقت کھجوروں کو چھوڑ کر جہاد کے میدان میں کود گئے یہاں تک کہ قتال کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ (صحیح مسلم ح: 1901)
آخر یہ کون سا ایمانی ذائقہ تھا جس نے دنیا کے ذائقوں کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا؟ یہ وہی ایمانی ذائقہ ہے جس کا ذکر حضرت عباس کی حدیث میں گزرا, اور یہ وہی ایمانی ذائقہ ہے جس کو چکھنے کے لئے صحابہء کرام نے مال , اولاد اور وطن کوچھوڑا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات انبیاء صحابہ وسلف صالحین کی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں۔
آج ہم اپنے ایمان کو جانچیں اور پرخیں کہ کس قدر ہم نے اس کے ذائقہ کو چکھا ہے, سوچیں کہ  ہمارا وہ ایمان جو ہمیں گھر سے مسجد تک نہ لے جا سکے وہ ہمیں قبر سے جنت تک کیسے لے جائے گا؟
ہمارا وہ ایمان جو ہمیں بدعات وخرافات سے نہ بچا سکے وہ ہمیں آب کوثر کے چشمہ شیریں تک کیسے لے جائے گا؟
ہمارا وہ ایمان جو ہمارے درمیان آپس میں محبت پیدا نہ کر سکے وہ عرش الہی کے سایہ  تلے ہمیں جگہ کیسے دلا سکتا ہے؟
ہمارا وہ ایمان جو ہمیں نبی پاک ﷺ کی زندگی کو آئڈیل بنانے پر مجبور نہ کر سکے وہ ہمیں کل قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا مستحق کیسے بنا سکتا ہے۔
ہمارا وہ ایمان جو ہمیں رب کی نافرمانی سے نہ روک سکے وہ ہمیں پل صراط کی منزل کیسے پار کروائگا۔
یہ سب اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم صحیح معنوں میں ایمان کا ذائقہ چکھیں, اللہ کو رب ماننے پر, اسلام کو دین ماننے پر, محمد ﷺ کو نبی رسول ماننے پر راضی ہو جائیں, تو یقیناً دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی ہمارا قدم چومے گی۔ آخرمیں اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں ایمان کا ذائقہ چکھنے کی توفیق عطا فرمائے, آمین۔ وآخر الدعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں