ٹائم اور کلنڈر

رمضان المبارک موقعِ غنیمت ہے


بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

رمضان المبارک موقعِ غنیمت ہے

?از قلم: ابو عدنان علی محمد المحمدی

اللہ رب العالمین نے ہمیں بہت سے ایسے مواقع عنایت فرمائیں ہیں جن کو ہمیں غنیمت سمجھنا چاہیے, ان مواقع میں سے پانچ اہم مواقع ایسے ہیں جن کا احادیث ِ مبارکہ میں بالخصوص ذکر آیا ہے, چنانچہ سیدنا  عبد اللہ  بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ نےایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے  ارشاد فرمایا:  "اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ"([1]).

            ترجمہ: " پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو! یعنی پانچ حالتیں ایسی ہیں کہ جب وہ موجود ہوں تو ان کو ان پانچ حالتوں سے غنیمت سمجھو جو زمانہ آئندہ میں پیش آنے والی ہیں (١) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو یعنی اپنے اس زمانہ کو غنیمت جانو اور اس سے پورا فائدہ اٹھاؤ جس میں تمہیں عبادت وطاعات کی انجام دہی اور اللہ کے دین کو پھیلانے کی طاقت وہمت میسر ہو۔ قبل اس کے کہ تمہارے جسمانی زوال کا زمانہ آجائے اور تم عبادت وطاعت وغیرہ کی انجام دہی میں ضعف وکمزوری محسوس کرنے لگو (٢) بیماری سے پہلے صحت کو یعنی ایمان کے بعد جو چیز سب سے بڑی نعمت ہے وہ صحت وتندرستی ہے، لہٰذا اپنی صحت وتندرستی کے زمانہ میں اگرچہ وہ بڑھاپے کے دور ہی میں کیوں نہ ہو، یعنی دینی ودنیاوی بھلائی وبہتری کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو، (٣) فقرو افلاس سے پہلے تونگری وخوشحالی کو (یعنی تمہیں جو مال ودولت نصیب ہے قبل اس کے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا موت کا پنجہ تمہیں اس سے جدا کردے تم اس کو عبادت مالیہ اور صدقات وخیرات میں خرچ کرو اور اس دولتمندی وخوشحالی کو ایک ایسا غنیمت موقع سمجھو جس میں تم اپنی اخروی فلاح وسعادت کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہو۔ (٤) مشاغل وتفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے وقت کی فراغت واطمینان کو۔ (٥) موت سے پہلے زندگی کو" ۔

تشریح : "اغتنم" کا لفظ " اغتنام" سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں غنیمت کا مال لینا۔، اور " غنیمت" اصل میں تو اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں نے لڑ کر اور حملہ کر کے حربی کافروں سے حاصل کیا ہو، لیکن اس لفظ کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو کسی محنت ومشقت کے بغیر ہاتھ لگی ہو۔

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جوانی، صحت، دولت فراغتِ وقت اور زندگی ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ ساتھ نہیں دیتیں ۔ جوانی کے بعد بڑھاپے، صحت کے بعد بیماری، دولت کے بعد محتاجگی، فراغت وقت کے بعد تفکرات ومشاغل اور زندگی کے بعد موت کا پیش آنا لازمی امر ہے، لہٰذا جب تک یہ چیزیں پیش نہ آئیں موقع غنیمت جانو اور اس میں اپنی دنیاوی واخروی بھلائی وبہتری کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو اس سے غفلت اختیار نہ کرو۔

            رمضان المارک کے اس مقدس مہینہ میں ہمیں ان مذکورہ  پانچ چیزوں کو بطور خاص غنیمت سمجھنا چاہیے , اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے رب کی اطاعت وفرمابرداری میں لگا دیں, اور کثرت تلاوت, ذکر واذکار واستغفار , قیام وصیام کے ذریعہ اپنے رب کی عبادت کریں, اس لئے کہ  اگلا رمضان اگر ہمیں مل بھی گیا  تو ضروری نہیں کہ  ہمارے جسم میں اسی طرح کی نشاط وچستی باقی رہے جو ابھی ہے۔

            اور آپ کو کیا معلوم جوانی کی فضیلت کیا ہے؟ جس نوجوان نے اپنی جوانی کو اپنے  رب  میں لگا دیا قیامت کے دن  وہ سات خوش نصیب لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں حبیبِ کبریا نے فرمایا: سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یوم لا ظلہ إلا ظلہ,  ومنہا: شاب نشا  فی عبادۃ اللہ, وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں لگا دی, قیامت کے دن وہ عرش الہی کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔

            آج ہمارے بہت سےجوان عبادت کر لیں گے بہت عمر پڑی ہے یہ سوچتے سوچتے اپنی جوانی گنوا دیتے ہیں, اور پھر جب ساٹھ سال کراس کر جاتے ہیں حکومت بھی انہیں نوکری سے دھتکار دیتی ہے, جب گناہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی تب سوچتے ہی کہ چلو اب اللہ کی عبادت کر لیتے ہیں , اب حج کر لیتے ہیں , اب فلاں کام کر لیتے ہیں ایسے وقت سوچتے ہیں جب صحیح سے رکوع نہیں کر سکتے , صحیح سے سجدہ نہیں کر سکتے , بہرحال  وہ تو غفور الرحیم ہے غفار ورحمان ہےایسے پر شکوہ حالات میں بھی اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے, ان کی عبادتوں کو قبولیت  کا شرف بخشتا ہے, لیکن اس عمر کی عبادت کو وہ مقام نہیں مل سکتا جو جوانی کی عبادت کا شرف ومقام ہے, اور ہاں کتنے بزرگ اور ضعیف ایسے بھی ہیں جنہوں اپنی جوانی کو رب کی عبادت وبندگی  میں گزارا مگر  وہ بڑھاپے کو پہنچنے کے باوجود بہت سے جوانوں سے بھی بلند حوصلہ رکھتے ہیں, قیام اللیل اور تراویح میں بہت سے جوانوں کو مات دے دیتے ہیں اس لئے کہ ان کی روح اور ایمان قوی ہے گرچہ کہ جسم لاغر ہو چکا ہے  مگر روحانی اور ایمانی اعتبار سے مضبوط  ہوتے  ہیں

اسی طرح اپنی صحت وتندرستی کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اللہ تعالى کی خوب عبادت کریں , کیوں  کہ پتا نہیں کہ کل کو ہم بیمار ہو جائیں اور پھر تمنا کریں کہ اے کاش کہ میں تندرست ہوتا تو اللہ کی اتنی اور اتنی عبادت کرتا, تلاوت کرتا وغیرہ وغیر ہ تمنائیں۔  صحت وتندرستی یہ اللہ تعالى کہ بہت عظیم نعمت ہے , جیسا کہ غالب نے کہا تھا:

تنگدستی اگر نہ ہو غالب                         تندرستی ہزار نعمت ہے۔

اس کے باوجود بھی  اکثر لوگ اس کی  قدر نہیں کرتے, جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم: «نِعْمَتَانِ مَغبونٌ فيهما كَثيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ، وَالفَرَاغُ» . رواه. البخاري.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اپنا نقصان اٹھاتے ہیں یعنی ان کی قدر نہیں کرتے، ایک صحت وتندرستی اور دوسری  فراغت۔

یعنی یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔

ایسے ہی رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں فرصت کے جو اوقات ہمیں میسر ہوں ان کو غنیمت جانتے ہوئے کثرت سے اپنے رب کی عبادت کریں , اور فرصت کے ان لمحات کو اطاعت وفرمابرداری میں صرف کریں۔

نبی کریم اس مبارک مہینہ میں کس قدر فرصت کے لمحات کا فائدہ اٹھاتے اس کا اندازہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:

عن عائشة رَضي الله عنها: أنَّ النَّبيّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يقُومُ مِنَ اللَّيلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَصنَعُ هَذَا يَا رسولَ الله، وَقدْ غَفَرَ الله لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: «أَفَلا أُحِبُّ أنْ أكُونَ عَبْداً شَكُوراً» . مُتَّفَقٌ عَلَيهِ، هَذَا لفظ البخاري.برقم: 4837

عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔

(عمر کے آخری حصہ میں (جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے (اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے) پھر رکوع کرتے۔)

وعَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَا فَعَلَ بِهِ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ، فِيمَا أَبْلَاهُ» رواه الترمذي وصححه الألباني.

ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔

چوتھی چیز جس کو غنیمت جاننا چاہیےوہ ہے  : مالداری کو فقیری اور محتاجگی سے پہلے غنیمت جاننا, قبل اس کے کہ تمہارا مال  سے گم ہو جائے , تمہارا مال تم سے زائل ہو جائے , تمہارا مال کسی فضول کام میں خرچ ہو جائے اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کر لو , اس لئے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی , بھلے ہی ہماری کوتاہ نگاہوں بظاہر کمی ہوتی نظر آئے مگر حقیقت میں کمی نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث پاک میں وارد ہے نبی کریم نے ارشاد فرمایا: «فَإِنَّهُ مَا نَقَّصَ مَالَ عَبْدٍ صَدَقَةٌ» وفی  روایۃ: «مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ» رواه الترمذي وأحمد وصححه الألباني.

 صدقہ کسی بندے کے مال میں کمی نہیں کرتا ہے, یا صدقہ سے کسی بندے کے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔

اور اس تعلق سے اللہ کے نبی کا حال اس ماہ مبارک میں کیا ہوتا تھا؟ آئیے بخاری ومسلم روایت دیکھتے ہیں کہ نبی کریم اس ماہ مبارک میں کس قدر صدقہ کیا کرتے تھے:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَأَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، لِأَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّى يَنْسَلِخَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ". متفق عليه.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں جبرائیل علیہ السلام آپ سے آ کر ہر رات ملتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا وہ ان راتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو جاتے تھے۔

پانچویں چیز جس کو غنیمت جاننا چاہیےوہ ہے : حیات قبل الممات, زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جاننا,  اس لئے یہ دنیاوی زندگی جو اللہ تعالى نے ہمیں عطا فرمائی ہے یہ در اصل  موقعِ غنیمت ہے اپنی اخروی زندگی کو بنانے اور  سنوارنے کے لئے, اور اگر ہم نے اس دنیاوی زندگی کو موقع غنیمت نہ جانا اور اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھایا تو اخروی زندگی میں بہت پچھتانا پڑے گا , اور اس وقت پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا , انسان تمنا کرے گا :

﴿يَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي قَدَّمۡتُ لِحَيَاتِي٢٤ [الفجر: 24] «کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا»۔

اور انسان مرنے سے پہلے صدقہ کرنے کے واسطے مزید زندہ رہنے کی تمنا کرے گا اور اس کی  مہلت طلب کر ے گا, اس لئے کہ صدقہ کا فائدہ تا دیر مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے, اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿وَأَنفِقُواْ مِن مَّا رَزَقۡنَٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن يَأۡتِيَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوۡلَآ أَخَّرۡتَنِيٓ إِلَىٰٓ أَجَلٖ قَرِيبٖ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ ٱلصَّٰلِحِينَ١٠ [المنافقون: 10]

«اور جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے اس (وقت) سے پیشتر خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کرلیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا(10)»

اور تمنا کرے گا کہ اے کاش ! رسول کی پیروی کیا ہوتا:  ﴿وَيَوۡمَ يَعَضُّ ٱلظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيۡهِ يَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي ٱتَّخَذۡتُ مَعَ ٱلرَّسُولِ سَبِيلٗا٢٧  يَٰوَيۡلَتَىٰ لَيۡتَنِي لَمۡ أَتَّخِذۡ فُلَانًا خَلِيلٗا٢٨ لَّقَدۡ أَضَلَّنِي عَنِ ٱلذِّكۡرِ بَعۡدَ إِذۡ جَآءَنِيۗ وَكَانَ ٱلشَّيۡطَٰنُ لِلۡإِنسَٰنِ خَذُولٗا٢٩ [الفرقان: 27-29] «اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا(27)»«ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا(28)» «اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔ اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے(29)»

رسول   کو چھوڑ کر غیروں کی اتباع کرنے والے دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا کریں گے: ﴿إِذۡ تَبَرَّأَ ٱلَّذِينَ ٱتُّبِعُواْ مِنَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ وَرَأَوُاْ ٱلۡعَذَابَ وَتَقَطَّعَتۡ بِهِمُ ٱلۡأَسۡبَابُ١٦٦ وَقَالَ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُواْ لَوۡ أَنَّ لَنَا كَرَّةٗ فَنَتَبَرَّأَ مِنۡهُمۡ كَمَا تَبَرَّءُواْ مِنَّاۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ ٱللَّهُ أَعۡمَٰلَهُمۡ حَسَرَٰتٍ عَلَيۡهِمۡۖ وَمَا هُم بِخَٰرِجِينَ مِنَ ٱلنَّارِ١٦٧ [البقرة: 166-167]

«اس دن (کفر کے) پیشوا اپنے پیرووں سے بیزاری ظاہر کریں گے اور (دونوں) عذاب (الہیٰ) دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے(166) (یہ حال دیکھ کر) پیروی کرنے والے (حسرت سے) کہیں گے کہ اے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہو تاکہ جس طرح یہ ہم سے بیزار ہو رہے ہیں اسی طرح ہم بھی ان سے بیزار ہوں۔ اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گااور وہ دوزخ سے نکل نہیں سکیں گے(167)»۔

اور جس کو اس کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے وہ تمنا کرے گا کہ کاش کہ مجھ کو میرے اعمال کا دفتر نہ دیا جاتا, اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ٢٥ وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ٢٦ يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ٢٧ مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ٢٨ هَلَكَ عَنِّي سُلۡطَٰنِيَهۡ٢٩ [الحاقة: 25-29] «اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں یاد جائے گا وہ کہے گا اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا(25) اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے(26) اے کاش موت (ابد الاآباد کے لئے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی(27) آج) میرا مال میرے کچھ بھی کام بھی نہ آیا(28) (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی(29)»۔

اور کافر یہ تمنا کرےگا کہ کاش میں مٹی ہوتا: ﴿ يَوۡمَ يَنظُرُ ٱلۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ يَدَاهُ وَيَقُولُ ٱلۡكَافِرُ يَٰلَيۡتَنِي كُنتُ تُرَٰبَۢا٤٠ [النبأ: 40] «جس دن ہر شخص ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا»

اس طرح  کی مختلف تمنائیں انسان کرے گا  لیکن اس وقت تمناؤں کا کیا فائدہ؟ پچھتانے کا کیا فائدہ؟اس لئے  کہ اللہ تعالى نےاسے  جو موقع عنایت فرمایا تھا  اس موقع کو اس نے غنیمت نہ جانا , اس موقع کی قدر نہیں کی, اس لئے اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

اس لئے ہمیں اپنی زندگی کو غنیمت سمجھنا چاہیے,اور زندگی میں جو دیگر اہم مواقع اللہ تعالى نے عنایت فرمائے ہیں ان  سے بھی ہمیں بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔

 جیسے رمضان المبارک کا مہینہ اور اس میں بالخصوص آخری عشرہ کو ہمیں غنمیت سمجھنا چاہیے۔ کیوں؟

  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ عظیم رات ہے جس میں اللہ رب العالمین نے اپنی عظیم کتاب قران کریم کو نازل فرمایا تھا۔
  • اور اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ مقدس رات ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ : ﴿لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرٞ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرٖ٣ [القدر: 3] «شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے(3)»
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ مبارک رات ہے جس میں فرشتے اور ان  کے سردار جبریل امین نزول فرماتے ہیں۔: ﴿تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡرٖ٤ [القدر: 4] «اس میں روح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام کے) لیے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں(4)»
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ عظیم رات ہے سراپا رحمت والی ہے۔ : ﴿سَلَٰمٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ٥ [القدر: 5]  «یہ (رات) طلوع صبح تک (امان اور) سلامتی ہے(5)»
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ عظیم رات ہے جس میں تمام حکمت کے کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے: ﴿فِيهَا يُفۡرَقُ كُلُّ أَمۡرٍ حَكِيمٍ٤ [الدخان: 4] «اسی رات میں تمام حکمت کے کام فیصل کئے جاتے ہیں(4)»
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ وہ عظیم عبادت ہے جس کوہم  اعتکاف کے نام سے جانتے ہے ۔
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں وہ عظیم ہستی بھی اپنی کمر کس لیا کر کرتی کہ جس کی اگلی پچھلی خطائوں   سے اللہ نے درگز فرما دیا تھا ۔
  • اس لئے  کہ اس آخری عشرہ میں رسول اللہ   ایسی جد وجہد کرتے جو دیگر عشروں میں نہیں کرتے تھے۔ (کان رسول اللہ یجتہد فی ہذا العشر ما لا یجتہد فی غیرہ)
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ میں قیام اللیل کرنے والے کے گزستہ تما م گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (من قام لیلۃ القدر غفر لہ ما تقدم من ذنبہ)
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ کے اختتام پر  وہ عبادت بھی ہے  جسے ہم صدقۃ الفطر کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جو کہ روزے دار کے لئے باعثِ طہارت اور فقراء ومساکین کے لئے باعث رزق ہے۔
  • اس لئے کہ اس آخری عشرہ پر رمضان المبارک کا اختتام بھی ہےاور عمل کا دورومدار جیسے اعمال پر ہے ویسے خاتمہ پر بھی ہے۔ (إنما الأعمال بالخواتیم)
    {{{{

 



([1]) رواه الحاكم وقال: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» وصححه الألباني في صَحِيح الْجَامِع: 1077 , وصَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:3355

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں