ٹائم اور کلنڈر

کسبِ معاش کتاب وسنت کی روشنی میں

P
کسبِ معاش کتاب وسنت کی روشنی میں
از قلم:  ابو عدنان علی محمد المحمدی
            بلا شبہ دنیا و آخرت کی کامیابی وکامرانى کیلئے انسانى زندگی میں عمل کا جو دخل ہے وہ کسی پر مخفی نہیں چنانچہ عمل ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعہ ایمان کی گہرائیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اور یہی وہ شئے ہے جس کی عدم توجہی ایمان کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے ۔ اور یہی وہ کسوٹی ہے جس کے ذریعہ ایمان میں کمی وزیادتی کو پرخا جاتا ہے۔ اور یہی وہ نسخئہ کیمیا ہے جس کے ذریعہ جنت تک رسائی ہوتی ہے۔
       انسانی زندگی میں عمل کی اہمیت کا اندازہ اس چیز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العلمین نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر عمل کو ایمان کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجۡرَ مَنۡ أَحۡسَنَ عَمَلًا٣٠ (کہف : ۳۰ ) ترجمہ  :  یقینا جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ثواب ضائع نہیں کرتے ۔
        اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے انسان کو خسارے سے بچنے کا ضابطہ بتلاتے ہوئے فرمایا:   ﴿وَٱلۡعَصۡرِ١ إِنَّ ٱلۡإِنسَٰنَ لَفِي خُسۡرٍ٢ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَتَوَاصَوۡاْ بِٱلۡحَقِّ وَتَوَاصَوۡاْ بِٱلصَّبۡرِ٣ (سورة عصر: ١٣ )   ترجمہ  :  زمانے کی قسم، بیشک انسان سر تا سر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ۔
       عملِ صالح یہ ایک ایسا جامع لفظ ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اللہ و رسول کی پیروی کرنے کو شامل ہے، خواہ انسان کا واسطہ عبادات سے ہو یا معاملات سے ، ہر امرمیں اللہ و رسول کی اتباع ضروری ہے ۔عملِ صالح نہ صرف صوم و صلاۃ کی پابندی ، زکوۃ وحج کی ادائگی کا نام ہے بلکہ یہ ہر اس عمل کو عام ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی خوشنودی ورضامندی حاصل ہوتی ہو خواہ وہ عمل بیوی کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات پوری کرنا ہی کیوں نہ ہو ۔آئیے ذیل کی سطور میں ہم آپ کو ایک ایسے عمل سے متعارف کراتے ہیں جس کا بظاہر تعلق عمل صالح سے تو نظر نہیں آتا مگر حقیقت میں وہ عملِ صالح ہی کا ایک جزء ہے جسے ہم کسبِ معاش یا ذرائع آمدنی کے نام سے جانتے ہیں ۔
        کسبِ معاش کے لئے مشروع ذرائع واسباب  کا  اختیار کرنا، توکّل کے منافی ہے نہ اپنی شان کے خلاف ، بلکہ یہ ایک افضل عمل ہے جس کو نہ صرف نبی کریم  ﷺ نے اختیار کیا بلکہ آپ ﷺ نے اس کے کرنے کی ترغیب بھی دلائی ، اس کے برعکس انسان اگر اپنے کسبِ معاش کے لئے کوشش نہ کرے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے تو اسے نہ صرف دنیاوی زندگی میں بہت سی محرومیوں کا سامناکرنا ہوگا بلکہ اخروی زندگی میں بھی مایوسی کا منہ دیکھنا ہوگا ،کیوں کہ جب اس کے پاس بقدرِ حاجت مال ونفقہ نہ ہوگا تو نہ وہ اہل وعیال کے نفقات ادا کرپائیگا اور نہ اولاد کی صحیح طور پر تعلیم وتربیت بلکہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیگا جو کہ بہت ہی قبیح فعل ہے شریعت میں اس کی بڑی  مذمت آئی ہے ، لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں میں یہ مرض بہت عام ہو گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ ، صدقات وخیرات جیسی عظیم نعمتوں سے محرومی بھی لازمی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿لَن تَنَالُواْ ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَۚ ( آل عمران : 92 )۔  جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤگے ۔
            ٭ آئیے قرآن وسنت کی روشنی میں ہم کسبِ معاش کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا کون سا عمل سب سے بہتر وأفضل ہے ۔  
            حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :  ( مَا أکلَ أحدٌ طعاماً قطُّ خیراً مِنْ أن یأکلَ مِن عَمَلِ یدِه ،وإنَّ نبیَّ اللّه داودَ علیه السلامُ کانَ یأکلُ مِن عملِ یدِه ) (صحیح بخاری حدیث : ۲۰۷۲ )۔  یعنی اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھا سکتا کہ آدمی اپنے ہاتھ سے کما کر کے کھائے، اور اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کے ذریعہ ہی کماتے کھاتے تھے ۔
            سنن ابن ماجہ میں حضرت مقدام ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : (ما کسبَ الرجل کسْباً أطیبَ من عمل یده وما أنفق الرجل علی نفسه وأهله ولده وخادمه فهو صدقة  ترجمہ : ہاتھ کی کمائی سے زیادہ پاکیزہ کوئی کمائی نہیں ،  اور آدمی اپنے آپ پر ، اپنے اہل وعیال ، اولاد اور خادم وغیرہ پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اسکے لئے صدقہ ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ : ۲۱۳۸، صححہ الألبانی)۔
            مذکورہ دونوں حدیثوں میں نبی کریم ﷺ نے سب سے بہترین کمائی اسے قرار دیا ہے جسے آدمی اپنے ہاتھ سے کماتا ہے ، خواہ یہ کمانا زراعت سے ہو یاتجارت اورصنعت وحرفت وغیرہ سے ، حدیث میں کسب معاش(کمائی) کو کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے کہ کمائی کا اصل اور اہم مقصد کھاناہی ہوتا ہے ۔پہلی حدیث میں حضرت داود علیہ السلام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لئے آیا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایسی بادشاہت وسلطنت عطا فرمائی تھی کہ نہ ان سے پہلے کسی کو دی گئی اور نہ ان کے بعد کسی کو دی جائیگی ، اتنے بڑے حاکم وبادشاہ ہونے کے باوجودانہیں کمانے کی کیا ضرورت تھی لیکن حصولِ افضل کے واسطے وہ ہاتھ کے ذریعہ ہی کماتے کھاتے تھے ۔ 
        انہیں کے متعلق اللہ رب العلمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا  : ﴿وَعَلَّمۡنَٰهُ صَنۡعَةَ لَبُوسٖ لَّكُمۡ لِتُحۡصِنَكُم مِّنۢ بَأۡسِكُمۡۖ ٠ ( الأنبیاء : ۸۰ )  ترجمہ  :  اور ہم اسے تمہارے لئے لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تاکہ لڑائی کے ضرر سے تمہارا بچاؤ ہو ۔
            دوسری جگہ فرمایا : ﴿أَنِ ٱعۡمَلۡ سَٰبِغَٰتٖ وَقَدِّرۡ فِي ٱلسَّرۡدِۖ وَٱعۡمَلُواْ صَٰلِحًاۖ ( سورۃ سبأ:  ۱۱ )  ترجمہ : کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ ، تم سب نیک کام کیا کرو ۔
            مذکورہ آیات میں اللہ تعالی نے حضرت داود علیہ السلام  کے متعلق خبر دی کہ ہم نے انہیں لباس بنانے کی صنعت وحرفت سکھلائی ، چناچہ ان کے لئے لوہے کو نرم کر دیا ، جس  سے وہ جنگی لباس ، لوہے کی زرہیں تیار کرتے تھے جو جنگ میں حفاظت کا ذریعہ ہوتی تھیں ۔
             حضرت ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (أجملوا فی  طلب الدنیا فإن کلا میسّر لما خلق له)  یعنی  : دنیا کے حصول میں اعتدال وتواضع سے کام لو ، اس لئے کہ ہر شخص کو اس کا نصیب ملنے والاہے ۔ (سنن ابن ماجہ : ۲۱۴۲ ، صححہ الألبانی ) ۔
            حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : (ما بعث الله نبیا إلا رعی الغنم فقال أصحابه: وأنتَ؟ فقال : نَعَمْ، کنتُ أرعَاها عَلَی قراریط لأهلِ مَکّةَ) ( صحیح بخاری : ۲۲۶۲ ) ترجمہ :  اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ، صحابہ کرام نے عرض کیا : آپ نے بھی ؟ فرمایا : ہاں ، میں بھی اہل مکہ کی بکریوں کو قیراطوں کے بدلے چراتا تھا ۔
نوٹ : حدیث میں مذکور (قراریط)کے علماء نے دو معنی بیان فرمائے ہیں ، پہلا یہ کہ قراریط مکہ میں ایک جگہ کانام ہے جہاں آپ بکریوں کو چراتے تھے ، دوسرا یہ کہ قراریط ، قیراط کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ قیراطوں کے عوض میں یعنی اجرت پر بکریاں چراتے تھے۔ یہی دوسرا معنی ہمارا مقصود ہے ۔
             مذکورہ حدیث میں جہاں ہمیں اجرت پر کام کرنے کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے ،وہیں أنبیا کرام کے وظیفہ کسب معاش کی بھی معرفت ہوتی ہے ۔ أنبیا کرام کے لئے اللہ تعالی نے بکریوں کے چرانے کا جو وظیفہ مقرر فرمایا  اس کے مختلف اہم مقاصد میں سے ایک اہم مقصد صبر وتحمل ، حلم وبردباری کا عادی بنا کرکے مستقبل میں انہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری سنبھالنے کا احساس پیدا کرناتھا ۔
            کسب معاش کے لئے اجرت پر کام کرنا کوئی عیب کی بات نہیں اس لئے کہ ابتدائے آفرینش سے اللہ تعالی کی یہی سنت چلی آرہی ہے ارشاد باری تعالی ہے : ﴿أَهُمۡ يَقۡسِمُونَ رَحۡمَتَ رَبِّكَۚ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُم مَّعِيشَتَهُمۡ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۚ وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٖ دَرَجَٰتٖ لِّيَتَّخِذَ بَعۡضُهُم بَعۡضٗا سُخۡرِيّٗاۗ وَرَحۡمَتُ رَبِّكَ خَيۡرٞ مِّمَّا يَجۡمَعُونَ٣٢(الزخرف : ۳۲)۔  ترجمہ : کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں ہم نے ان کی زندگانئی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے ،  اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے  تاکہ ایک دوسرے کو ما تحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے ۔
            حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : أیّهَا النّاسُ! اتَّقُوْا اللَّهَ، وأَجْمِلوا فِی الطَّلَبِ، فإِنَّ نَفْساً لَنْ تَمُوْتَ حَتَّی تَستَوفِیَ رِزقَها، وإن أبْطأ عنها، فاتّقوا اللَّهَ، وأَجْمِلوا فی الطلب، خُذُوْا مَا حَلَّ، ودَعُوْا مَا حَرُمَ ۔ ترجمہ : اے لوگو اللہ سے ڈرو ، اور دنیاکی طلب میں اعتدال وتواضع سے کام لو،  اس لئے کہ کوئی شخص اس وقت تک فوت نہیں ہوگا جب تک وہ اپنا رزق حاصل نہ کر لے گرچہ وہ اس میں تاخیر کر دے، اللہ سے ڈرو اور حصولِ دنیا میں اعتدال اختیار کرو، اور حلال کو حاصل کرو،  حرام کو ترک کر دو ۔ ( أخرجہ ابن ماجہ : حدیث : ۲۱۴۴،صححہ الألبانی )
           مذکورہ احادیث میں جہاں کسبِ معاش کی طرف رغبت دلائی گئی وہیں اسے حلال وحرام کے اصول وضوالط سے بھی مقید فرما دیا ، چنانچہ ارشاد باری ہے :  ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَأۡكُلُوٓاْ أَمۡوَٰلَكُم بَيۡنَكُم بِٱلۡبَٰطِلِ إِلَّآ أَن تَكُونَ تِجَٰرَةً عَن تَرَاضٖ مِّنكُمۡۚ وَلَا تَقۡتُلُوٓاْ أَنفُسَكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيمٗا٢٩ (سورۃ النساء : ۲۹ ) ترجمہ  :  اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال نا جائز طریقہ سے مت کھاؤ ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت ،  اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ،  یقینا اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے ۔
    آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں کسب معاش ودیگر معاملات میں حلال وحرام کے درمیان تمیزکرنے کی توفیق بخشے۔آمین ۔