ٹائم اور کلنڈر

رمضان کے بعد کیا کریں....؟




بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

رمضان کے بعد کیا کریں....؟

حامداً  ومصلیاً أما بعد!

اللہ رب السموات والارض  کے انعام واکرام کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے تاکہ اس کے فضل وکرم کی برکھا , اور رحمتِ باراں مزید  برستی رہے, نیکیوں کے موسمِ بہار رمضان المبارک میں ہم نے جو اپنے دامنِ مراد کو نیکیوں سے  بھرا تو  ان نیکیوں  کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہےکیوں کہ ان نیکیوں کو برباد کرنے کے لئے وہ شخص آزاد ہو گیا ہے جس کو رمضان سے پہلے قید کر دیا گیا تھا, اس سنہرے موقع پر ہم نے نیکیوں کا جو قلعہ تعمیر کیا تھا اس قلعہ کو مسمار کرنے کے لئےوہ  مختلف قسم کی تدبیریں اور حیلہ بازیاں کر  رہا ہے, لیکن یہ بات یاد رکھوکہ جس کے پاس تقوى کا ہتھیار ہو تو اس کے سامنے اس کی ساری تدبیریں ہیچ ہیں کمزور  ہیں جیسا کہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿فَقَٰتِلُوٓاْ أَوۡلِيَآءَ ٱلشَّيۡطَٰنِۖ إِنَّ كَيۡدَ ٱلشَّيۡطَٰنِ كَانَ ضَعِيفًا٧٦ [النساء: 76]

«پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو یقین مانو کہ شیطانی حیلہ ( بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔»

یقینا وہ  تقوى جس کو ہم نے ماہِ رمضان  میں حاصل کیا تھا وہی شیطان کی چالبازیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے, اللہ تعالى نے مومنین کے لئے ماہِ رمضان کو سالانہ ریفریشر کورس کے طور پر عطا فرمایا , چنانچہ جو شخص جتنا زیادہ فریش ہوا , اور جس نے جتنا تقوى اختیار کیا وہ سال کے بقیہ مہینوں میں اتنا ہی تروتازہ رہے گا اور شیطان کے مکر وفریب کا بھر پور مقابلہ کر پائے گا, اور جو شخص رمضان المبارک کے رخصت ہوتے ہی شیطان کے جال میں پھنس گیا سمجھ لو کہ اس  کے رمضان کے روزوں میں کمی  کوتاہی رہ گئی ہے, شاید اس نے بھوک پیاس کو برداست تو کیا لیکن روزوں کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا, یہی وجہ ہے کہ  اس کے پاس تقوى وتشکر کا وہ ذخیرہ جمع نہیں ہو پایا جس کے ذریعہ وہ  شیطان کا مقابلہ سکے, باوجود اس کے کہ اس کا مکر وفریب کمزور ہے پھر بھی انسان اس کا مقابلہ نہیں کر پاتا , کیوں؟ اس لئے کہ اس کے پاس ایک داخلی دشمن بھی ہےجو کہ خارجی دشمن سے زیادہ خطرناک ہے,اور یہ بات بالکل اٹل ہے کہ  داخلی دشمن کا مقابلہ کرنا خارجی دشمن کے مقابلہ میں زیادہ مشکل ہوتا ہے, وہ داخلی دشمن کون ہے؟ وہ  ہمارا اپنا نفس ہے , ﴿إِنَّ ٱلنَّفۡسَ لَأَمَّارَةُۢ بِٱلسُّوٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيٓۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٞ رَّحِيمٞ٥٣ [يوسف: 53] « یقینا نفس کا تو کام ہی ہمیشہ (انسان کو ) برائی پر اکسانا ہے، مگر جس پر رحم فرما دے میرا رب، بیشک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔ »

اور اللہ سبحانہ وتعالى مشرکین کے بارے میں فرماتا ہے جو کہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں: ﴿ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَمَا تَهۡوَى ٱلۡأَنفُسُۖ وَلَقَدۡ جَآءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ ٱلۡهُدَىٰٓ٢٣ [النجم: 23] « حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تو محض وہم و گمان کے پیچھے چلتے ہیں اور ان خواہشات کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے نفسوں میں آتی ہیں, حالانکہ ان کے پروردگار کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آچکی ہے»

عام طور پر انسان کا نفس اس کو برائی پر ابھارتا رہتا مگر جس پر اللہ تعالى اپنا خاص رحم وکرم فرما دے, چنانچہ ایک مومن ہمیشہ اپنے کو ملامت کرتا رہتا ہے , اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ر ہتا ہے اسی نفس کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا:  ﴿وَلَآ أُقۡسِمُ بِٱلنَّفۡسِ ٱللَّوَّامَةِ٢ [القيامة: 2] « اور میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں (کہ قیامت آکے رہے گی)»

مؤمن اپنے آپ کو برابر ملامت کرتا رہتا ہیں اور محاسبہ کرتا  رہتا ہے, تزکیہ کرتا  رہتا ہے, یہاں تک کہ وہ نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے۔

جس کے بارے میں اللہ تعالى نے فرمایا:  ﴿يَٰٓأَيَّتُهَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَئِنَّةُ٢٧ ٱرۡجِعِيٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةٗ مَّرۡضِيَّةٗ٢٨ فَٱدۡخُلِي فِي عِبَٰدِي٢٩ وَٱدۡخُلِي جَنَّتِي٣٠ [الفجر: 27-30] «اے اطمینان پانے والی روح!(27) اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی(28) تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا(29) اور میری بہشت میں داخل ہو جا(30)»۔

اور جس نے اپنے نفس کو اتباع ہوى سے روک لیا وہ کامیاب ہو گیا اس کا  ٹھکانا جنت  ہے: ﴿وَأَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفۡسَ عَنِ ٱلۡهَوَىٰ٤٠ فَإِنَّ ٱلۡجَنَّةَ هِيَ ٱلۡمَأۡوَىٰ٤١ [النازعات: 40-41] «اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا(40) اس کا ٹھکانہ بہشت ہے(41)»

یقیناً نفس سے مقابلہ کرنا یہی حقیقی  جہاد ہے, جیسا کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: " المجاهد من جاهد نفسَه في طاعة الله والمهاجر من هجَر ما نهى اللهُ عنه " (رواه أحمد وصححه الألباني في الصحيحة)۔

مجاہد وہ ہے جس نے اللہ تعالى کی اطاعت وفرمابرداری میں اپنے نفس سے مجاہدہ کیا, اور مہاجر وہ ہے جس نے اس چیز کو ترک کر دیا جس سے اللہ تعالى نے منع  فرمایا۔

وقال صلى الله عليه وسلم: " أفضل الجهاد من جاهد نفسه في ذات الله " (الصحيحة).

 سأل رجل عبد الله بن عمر عن الجهاد؟ فقال: ابدأ بنفسك فجاهدها...."

 

مجاہدہ نفس کے بارے میں نبی کریم کی اعلى مثال:

عن عائشة رضى الله عنه قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى قام حتى تتفطر رجلاه فقلت: يا رسول الله هذا وقد غُفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر. قال: يا عائشة أفلا أكون عبداً شكوراً " (متفق عليه)

وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة فلم يزل قائماً حتى هممت بأمر سوء. قلنا: وما هممت؟ قال: أن أقعد وأذره " (رواه البخاري)

 

برادرانِ اسلام ! ہمیں چاہیئے کہ ہم شیطان سے بھی مقابلہ کریں اور  اپنے نفس سے بھی جہاد کریں  کہ جس کے ذریعہ سے شیطان  انسان پر حاوی ہوتا ہے, وہ شیطان جو ہر دن انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا لاؤ لشکر بھیجتا ہےاور اس کی تدبیریں کرتا ہے جیسا کہ امام مسلم روایت کرتے ہیں :

عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً، يَجِيءُ أَحَدُهُمْ، فَيَقُولُ: فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: مَا صَنَعْتَ شَيْئًا، قَالَ: ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ، فَيَقُولُ: مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ، قَالَ: فَيُدْنِيهِ مِنْهُ، وَيَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ "، قَالَ الْأَعْمَشُ: أُرَاهُ قَالَ فَيَلْتَزِمُهُ. [رواه مسلم برقم: 2813حسب ترقيم فؤاد/ 7106]

‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو عالم میں فساد کرنے بھیجتا ہے۔ سو اس سے مرتبہ میں زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو بڑا فساد ڈالے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی) تو شیطان کہتا ہے: تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ جدائی کرا دی اس میں اور اس کی جورو (بیوی) میں تو اس کو اپنے پاس کر لیتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا: اس کو چمٹا لیتا ہے۔

            آج جب شیطان آزاد ہو چکا ہے اس کی بیڑیاں کھل چکی ہیں تو ہمیں اپنے آپ کو اس کے جال سے بچانے کے لئے کس قدر چوکنا ہو جانا چاہیئے, اور اس کے لئے ویسے ہی تدبیر کرنی چاہیئے جیسے وہ ہمیں بہکانے کے لئے کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

            رمضان کےبعد اس کو  رسوا کرنے کے لئے نبی کریم نے ہمیں ایک بہترین طریقہ یہ سکھلایا کہ رمضان کے بعد شوال کے  چھ روزے اور رکھیں تاکہ وہ بہکانے آئے تو آپ کو روزے کی حالت میں دیکھ کر رسوا ہو جائے۔

نبی کا ارشاد ہے:  " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ " [رواہ مسلم وغیرہ]. ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“

”ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے“ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔

اعمال کی قبولیت کی علامتیں: انسان جو کچھ بھی نیک عمل کرتا ہے  تو اسے اس  چیز کی فکر لاحق ہونی چاہئے کہ اس کا عمل عند اللہ قبول ہو رہا ہے یا نہیں ؟ ویسے توعمل کی قبولیت کو اللہ تعالى کے سوا کوئی نہیں جانتا البتہ اللہ اور اس کے رسول نے کچھ ایسی علامتیں بیان فرمائی ہیں جو عمل کی قبولیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں, جن سے بندہ یہ اندازہ لگا سکتا کہ اس کا عمل اللہ کے یہاں ان شاء اللہ مقبول ہوگا, اس کے جاننے سے بندے کے دل اعمال کی مزید رغبت پیدا ہوگی, آئیے ان علامتوں پر سرسری سی ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. عمل کی عدم قبولیت کا خوف, ایک مؤمن بندہ چاہے کتنا بھی نیک عمل کر لے پھر بھی ہمیشہ یہ خوف کھاتا رہتا ہے کہ کہیں اس کا صالح عمل کسی وجہ سے اللہ کے یہاں رد نہ ہو جائے, اسی سے متعلق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ سے اس آیت کے تعلق سے دریافت فرمایا:  ﴿وَٱلَّذِينَ يُؤۡتُونَ مَآ ءَاتَواْ وَّقُلُوبُهُمۡ وَجِلَةٌ أَنَّهُمۡ إِلَىٰ رَبِّهِمۡ رَٰجِعُونَ٦٠ [المؤمنون: 60] «اور جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ دیتے ہیں اللہ کی راہ میں جو کچھ کہ ان کو دینا ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں(کہ قبول ہو گا یا نہیں)، اس عقیدہ و احساس کی بناء پر کہ ان کو بہرحال اپنے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے» اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت کا مطلب پوچھتے ہوئے کہا: أَهُمُ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں، اور چوری کرتے ہیں؟: تو آپ  نے فرمایا:  "لَا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لَا يُقْبَلَ مِنْهُمْ، أُولَئِكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ"، نہیں، صدیق کی صاحبزادی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں قبول نہ ہوں، یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات (بھلے کاموں) میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہی لوگ بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں۔
  2. دوسری چیز رجاء اور امید ہے: ایک مؤمن بندہ کے لئے صرف خوف کافی نہیں ہے بلکہ رجاء اور امید بھی ضروری ہے اس لئے کہ خوف بلا رجاء, یہ قنوط اور یاس وناامیدی کو جنم دیتا ہے, اسی طرح اس کے برعکس رجاء بلا خوف, یہ لا پرواہی اور فکری کو جنم دیتا ہے, دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر خطرے سے خالی نہیں ہیں, اس لئے ایک مؤمن بندہ   رجاء اور خوف کے درمیان رہتا ہے, اللہ سے خوف بھی کھاتا رہتا ہے اور امید بھی لگائے رہتا ہے کہ ان شاء اللہ اس کا عمل قبول ہوگا, نا صرف امید لگائے رہتا ہے بلکہ اللہ تعالى سے قبولیت کی دعا بھی کرتا رہتا ہے جیسا حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام  خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دعا فرماتے تھے: ﴿وَإِذۡ يَرۡفَعُ إِبۡرَٰهِ‍ۧمُ ٱلۡقَوَاعِدَ مِنَ ٱلۡبَيۡتِ وَإِسۡمَٰعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ١٢٧ [البقرة: 127] «اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے(127)».
  3. عملِ صالح کے بعدعملِ صالح کی توفیق ملنا  قبولیتِ عمل کی علامتوں میں سے ہے, یعنی نیکی کے بعد نیکی کرنا,  جو بندہ خلوصِ دل کے ساتھ نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالى اپنے  فضل وکرم  سے اس کے لئے دوسری نیکی کا دروازہ کھول دیتا ہےتا کہ وہ  مزید اللہ تعالى سے قریب ہو جائے۔
  4. تیسیرِ طاعت اور ابعاد معصیت: یعنی بندے کے لئے اطاعت وفرمابرداری کے کام آسان ہو جاتے ہیں اور انہیں بجا لانے میں اسے کوئی دشواری لاحق نہیں ہوتی, اور معصیت کے کاموں سے اسے نفرت ہو جاتی ہے اور معصیت کا سر انجام دینا اس پر گراں گزرتا ہے,  چنانچہ اللہ تعالى اس کے لئے ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کو آسان بنا دیتا ہے, اور معصیت سے اسے دور کر دیتا ہے, اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿فَأَمَّا مَنۡ أَعۡطَىٰ وَٱتَّقَىٰ٥ وَصَدَّقَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ٦ فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلۡيُسۡرَىٰ٧ وَأَمَّا مَنۢ بَخِلَ وَٱسۡتَغۡنَىٰ٨ وَكَذَّبَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ٩ فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلۡعُسۡرَىٰ١٠ [الليل: 5-10] «تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیز گاری کی(5) اور نیک بات کو سچ جانا(6) اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے(7) اور جس نے بخل کیا اور بےپروا بنا رہا(8) اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا(9) اسے سختی میں پہنچائیں گے(10)»۔
  5. اطاعت وفرمابرداری سے محبت اور معصیت سے ناپسندیدگی  بھی قبولیتِ اعمال کی علامتوں میں سے ہے,  جب بندہ اللہ تعالى کی اطاعت وفرمابرداری کرتا ہے تو اللہ تعالى اس کے دل میں نیکی کی محبت ڈال دیتا ہے جس پر اس کا نفس مطمئن رہتا ہے, اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَطۡمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكۡرِ ٱللَّهِۗ أَلَا بِذِكۡرِ ٱللَّهِ تَطۡمَئِنُّ ٱلۡقُلُوبُ٢٨ [الرعد: 28] «جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے»۔ ایسے ہی بندہ معصیت اور اس کی قربت سے ناپسندیدگی اور کراہیت کا اظہار کرتا ہے , اور اللہ تعالى سے دعا کرتا ہے: اللهم حبب إليَّ الإيمان وزينه في قلبي وكرَّه إليَّ الكفر والفسوق والعصيان واجعلني من الراشدين. اے اللہ ایمان کو میرے لئے محبوب بنا دے اور میرے دل میں اس کو مزین کر دے, اور کفر وفسوق اور نافرمانی کو میرے نزدیک  مکروہ اور ناپسندیدہ بنا دے, اور مجھے رشد وہدایت پانے والوں میں سے بنا دے۔
  6. عمل کو کمتر سمجھنا اور عُجب وغرور میں مبتلا نہ ہونا  بھی قبولیتِ اعمال کی علامتوں میں سے ہے,  ایک مؤمن بندہ کتنا بھی نیک عمل کر لے وہ اللہ تعالى کی ان نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا جو اس کے جسم میں ہیں, اس لئے ایک مخلص بندہ وہ کتنا بھی عمل کر لے وہ اسے کمتر ہی سمجھتا ہے, اپنے عمل کی وجہ سے گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا جو کہ اعمال کو برباد کر دیتے ہیں, غور فرمائیے کہ اللہ تعالى کس طرح اپنے حبیب محمد کو وصیت فرماتا ہے بعد اس کے اسے عظیم امور کا حکم دیتا ہے : کہ زیادہ عمل کرکے احسان نہ جتلا, ارشاد باری تعالى ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلۡمُدَّثِّرُ١ قُمۡ فَأَنذِرۡ٢ وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ٣ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرۡ٤ وَٱلرُّجۡزَ فَٱهۡجُرۡ٥ وَلَا تَمۡنُن تَسۡتَكۡثِرُ٦ [المدثر: 1-6] «اے کپڑا اوڑھنے والے (1) اٹھیے اور (لوگوں کو برے انجام سے) ڈرائیے (2) اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو(3) اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھیے (4) اور ناپاکی سے دور رہیے(5) اور زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کیجیے (6)» امام حسن بصری اس  آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اپنے عمل کے ذریعہ اپنے رب پر احسان نہ جتلا تاکہ تو اور زیادہ چاہے۔
  7. صالحین سے محبت اور اہلِ معصیت سے بغض بھی قبولیتِ اعمال کی علامتوں میں سے ہے, نبی کریم کا ارشاد ہے:  " من أحب لله، وأبغض لله، وأعطى لله، ومنع لله، فقد استكمل الإيمان " رواه أحمد ۔  جس نے اللہ کے لئے کسی سے محبت کی , اور اللہ ہی کے واسطے کسی سے بغض کیا, اور اللہ کے واسطے کسی کو عطا کیا یعنی صدقہ وغیرہ کیا, اور اللہ  ہی کےواسطے کسی کو منع کر دیا یعنی اسے نہیں دیا, تو اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔
  8. عمل صالح پر مداومت اختیار کرنا بھی قبولیتِ اعمال کی علامتوں میں سے ہے, عملِ صالح پر مداومت برتنا یہ نبی کریم کی سنت رہی ہے, اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عمل عملاً أثبته) رواه مسلم. رسول اللہ جب کوئی عمل کرتے تو اس پر ثابت قدم رہتے یعنی مداومت اختیار کرتے۔
                ایک دوسری روایت میں ہے : عَنْ  عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "سُئِلَ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ ".‏‏‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: ”جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔“
     
    اس لئے گزرے ہوئے ایام میں بالخصوص رمضان میں ہم نے جو نیک اعمال سر انجام دیے ہیں ان پر مداومت اختیار کریں , ان کو کلی طور پر ترک نہ کر دیں , انہیں سر انجام دیتے رہیں گرچہ کہ تھوڑا تھوڑا ہی صحیح۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں