ٹائم اور کلنڈر

رمضان کا آخری خطبہ (1440ھ)


بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

رمضان کا آخری خطبہ (1440ھ)

الله تعالى کی ذات کے سوا کسی کو بقاء ودوام  نہیں,  ہر چیز فانی ہے, یہی اللہ تعالى کی سنت ہے, ارشاد باری تعالى ہے:  ﴿ كُلُّ شَيۡءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجۡهَهُۥۚ لَهُ ٱلۡحُكۡمُ وَإِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ٨٨ [القصص: 88] «ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے وجہ  (اور ذات ) کے ۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے», اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ﴿كُلُّ مَنۡ عَلَيۡهَا فَانٖ٢٦ وَيَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ٢٧ [الرحمن: 26-27] «جو (مخلوق)  زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے» «اور تمہارے پروردگار کا وجہ (اور اس کی ذات بابرکات)  جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گی»

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر چیز فانی ہے, ہر چیز کو ایک نہ ایک دن زوال پزیر ہونا ہے, ایسے ہی رمضان المبارک کا مہینہ بھی اپنے فیوض وبرکات کے ساتھ عنقریب رخصت ہونے والا ہے,اور ہم سے الوداع کہنے والا ہے۔

اے نعمتوں کے قدر دانوں ! اللہ کے ان انعامات سے فائدہ اٹھا لو , قبل اس کے یہ انعامات تم سے رخصت ہوں , غروب  ہونے والا آفتاب ہمیں ہر دن یہ پیغام دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک دن کم ہو گیا ہے, ہم تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ہم اس چیز کا احساس تک نہیں کرتے, چہ جائے کہ ہم اس کے لئے فکر مند ہوں , اورہم  ایسے زندگی بسر ہیں جیسے موت ہمیں آنی ہی نہیں ہے,  حالاں کہ لیل ونہار کی اس گردش میں ہمارے لئے  بے شمار نشانیاں ہیں, ارشاد ربانی ہے : ﴿إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ لَأٓيَٰتٖ لِّأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ١٩٠ [آل عمران: 190] «بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور  (گردشِ لیل ونہار) رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں(190)»

لیل ونہار کی یہی گردش اب چند دنوں  میں ہم سے اس نعمت کو جدا کر دے گی , اور نہیں معلوم کہ کب ہم کو اس دنیا سے جدا کر دے, لہذا زندگی کے ان قیمتی لمحات کو ہم غنیمت جانیں, اور ان سے بھر پور استفادہ کریں

 رمضان المبارک کا  مہینہ اپنی بے شمار  رحمتوں اور  برکتوں کے ساتھ  جلوہ افروز ہوا, چنانچہ  جس نے اس  کی قدر کی اس نے اس سے فائدہ اٹھایا ,جس نے ناقدری کی اس نے خسارہ اٹھایا,  گویا    کہ رمضان کا مہینہ نیکیوں کا سالانہ بازار ہے , نیکیوں کا یہ بازار اپنی تان بان سے  سزا , اس بازار میں جس نے جتنی جد وجہد کی اس نے اتنا ہی نفع کمایا,  جتنی تگ ودَو کی اتنا ہی فائدہ اٹھایا, اور جس نے سستی اور کاہلی سے کام لیا , غفلت میں اپنے اوقات کو ضائع کر دیااس نے خسارہ اٹھایا۔

اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ يَتۡلُونَ كِتَٰبَ ٱللَّهِ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ سِرّٗا وَعَلَانِيَةٗ يَرۡجُونَ تِجَٰرَةٗ لَّن تَبُورَ٢٩ لِيُوَفِّيَهُمۡ أُجُورَهُمۡ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضۡلِهِۦٓۚ إِنَّهُۥ غَفُورٞ شَكُورٞ٣٠ [فاطر: 29-30]

«جو لوگ اللہ  کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت (کے فائدے) کے امیدوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی(29) کیونکہ اللہ  ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی دے گا۔ وہ تو بخشنے والا (اور) قدردان ہے(30)»

رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں مذکورہ تمام اعمال (تلاوتِ قرآن, اقامتِ صلات , انفاق فی سبیل اللہ) کو سر انجام دینے کا موقع ہمیں بخوبی ملتا ہے, اور اللہ تعالى نے ان اعمال کو ایسی تجارت قرار دیا ہے جس میں کبھی خسارہ ہونے والا نہیں۔

آئیے ہم اپنے نفسوں کا محاسبہ کرتے ہیں, اور خود اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے رمضان کے گزرے ہوئے لمحات سے کتنا فائدہ اٹھایا؟  ہم نے اپنے اوقات کو رب کی اطاعت وفرمابرداری میں گزارا یا خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں گزارا؟  اگر ہم نے واقعی اپنے اوقات کو اللہ  کی اطاعت وفرمابردای میں گزارا ہے تو اللہ کا شکر ادا رکریں جس نے ہمیں اس کار خیر کی توفیق دی, اور مزید خیر کے کاموں میں جد وجہد کریں , اور اگر ہم نے اپنے اوقات کو ضائع کیا خواہشات نفس کی تکمیل میں , رب کی نافرمانی میں, تو ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے سنبھلنے کا , اپنے آپ کو سنوارنے کا, اس لئے کہ عمل کا دارومدار جہاں نیتوں پر ہوتا ہے وہیں خاتمہ پر بھی ہوتا ہے: إنما الأعمال بالخواتیم, لہذا رمضان المبارک کے ختم ہونے سے پہلے اپنی کوتاہیوں کو دور کر لیں , اس کے الوداع کہنے سے پہلے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں , اللہ معاف کرنے والا ہےوہ غفور رحیم ہے, کثرت سے اللہ کا ذکر کریں , اس  لئے کہ رمضان کے اختتام پر اللہ کی تکبیر بلند کرنا , اس کا ذکر کرنا رمضان کی بہتریں تودیع ہے, اللہ تعالى کا ارشاد ہے:  ﴿شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ١٨٥ [البقرة: 185]

«(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو(185)»

جب یہ بات طے ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہےتو بات یاد رکھیں کہ بہترین اعمال توبہ واستغفار ہیں , اللہ تعالى نے اپنے نبی کو بھی اس کا حکم دیا:  ﴿إِذَا جَآءَ نَصۡرُ ٱللَّهِ وَٱلۡفَتۡحُ١ وَرَأَيۡتَ ٱلنَّاسَ يَدۡخُلُونَ فِي دِينِ ٱللَّهِ أَفۡوَاجٗا٢ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَٱسۡتَغۡفِرۡهُۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابَۢا٣ [النصر: 1-3]  «جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)(1) اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں(2) تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ معاف کرنے والا ہے(3)»

اور اسی طرح حاجیوں کو بھی اللہ نے حکم دیا: ﴿ثُمَّ أَفِيضُواْ مِنۡ حَيۡثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسۡتَغۡفِرُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ١٩٩ [البقرة: 199]  «پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور اللہ  سے بخشش مانگو۔ بےشک اللہ  بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے(199)»

اب آئیے رمضان کے اختتام پر ایک عبادت صدقۃ الفطر بھی ہے اس پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں, کہ یہ کن لوگوں  پر فرض ہے؟ اور کب فرض ہے یعنی اس کا وقت کیا ہے؟ اور کتنی فرض ہے؟ اور کیوں فرض ہے؟  

ان تمام سوالوں میں سے اکثر وبیشتر  کا جواب ہمیں اس روایت میں مل جائے گا جسے  امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:  عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ»

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔

اس  روایت سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر کس پر فرض ہے؟ صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر فرض ہے, خواہ وہ مسلمان آزاد ہو یا غلام, مرد ہو یا عورت, چھوٹا ہو یا بڑا۔

اس روایت سے اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کس چیز میں سے نکالنا ہے؟ صدقہ فطر  سماج میں رائج غذا اور غلہ  میں سے نکالنا ہےخواہ وہ کھجور , پنیر , منقى ہو , یا گیہوں اور چاول وغیرہ  ہو۔

کتنا نکالنا ہے؟ اس کا بھی  جواب اس میں موجود ہے, کہ ایک صاع یعنی چار مُد, رائج میزان  کے مطابق تقریباً  ڈھائی  کلو  صدقہ فطر ادا کرنا ہے۔

صدقہ فطر کب فرض ہے؟ یعنی اس کا وقت کیا ہے؟ عید کی نماز کے لئے نکلنے یا نمازِ عید  ادا کرنے سے پہلے پہلے نکالنا  ضروری ہے, اگر نماز عید سے پہلے نہیں نکالا تو وہ عام صدقات میں تو  شمار ہوگا , مگر  صدقہ فطر کے طور پر مقبول نہیں ہوگا۔

عید کے چند آداب:

  1. غسل کرنا اور اچھے کپڑے پہننا ,  مرد حضرات کو خوشبو  کا استعمال کرنا۔
  2. عید کے لئے نکلنے سے پہلے کچھ کھانا , خاص  طور سے طاق عدد میں کھجور کھانا مستحب ہے۔
  3. عید کے لئے نکلنے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنا۔
  4. عید کے لئے جاتے ہوئے مرد حضرات بلند آواز میں تکبیر کہیں , اور خواتین من ہی من میں ۔
  5. عید کے لئے پیدل جانا مستحب ہے۔گرچہ کہ سواری سے بھی جانا جائز ہے۔
  6. عید سے واپسی کے وقت راستہ بدل کر آنا۔
  7. عید کی مبارکبادی دینا۔ مثلاً: " تقبل اللہ منا ونکم صالح الأعمال" جیسے الفاظ میں مبارکبادی دینا۔

ہذا وصلى واللہ وسلم على نبینا محمد وعلى آلہ وصحبہ اجمعین۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں