ٹائم اور کلنڈر

فضائل عشرهء ذی الحجہ


فضائل عشرهء ذی الحجہ
بقلم: ابو عدنان علی محمد المحمدی المدنی
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام على رسولہ الکریم, أما بعد:
فأعوذ باللہ  السمیع العلیم من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال تعالى:  «وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ » (سورۃ الفجر: 1-3) قسم ہے فجر کی ! اور (ذی الحجہ کی ابتدائی) دس راتوں کی قسم, اور جفت اور طاق کی!۔
الله رب العالمین نے اپنے فضل وکرم سے  ہمارے لئے  کچھ ایسے ایام بنائے ہیں جن میں نیک اعمال کرنا زیادہ فضیلت وثواب کا باعث ہے, انہیں بابرکت ایام میں سے  مقدس ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں جنہیں ہم عشرہء ذی الحجہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔  ان ایام کا اللہ کے ہاں بہت عظیم مقام ہیں اور ان میں نیک عمل کرنا اللہ کو بہت ہی محبوب ہے, کتاب وسنت میں ان ایام  كی اہمیت وفضیلت کے تعلق سے بہت سارے نصوص ہیں  جن سے ان کی اہمیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے, آیئے ان ایام کی فضیلت پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1- قرآن پاک میں اللہ تعالى نے عشرہء ذو الحجہ  کی راتوں کی قسم کھائی ہے, اللہ رب العالمین کی ذات بہت عظیم ہے اور عظیم ذات عظیم چیز کی قسم کھاتی ہے, اللہ تعالى نے سورہ فجر میں ارشاد فرمایا: «وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ » (سورۃ الفجر: 1-3) قسم ہے فجر کی ! اور (ذی الحجہ کی ابتدائی) دس راتوں کی قسم, اور جفت اور طاق کی!۔
جمہور مفسرین کا ماننا ہے کہ یہاں عشرہ لیال سے ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں مراد ہیں , امام ابن کثیر نے اسی بات کو صحیح قرار دیا ہے۔  
2- یہ وہی ایامِ معلومات ہیں جن میں اللہ تعالى نے اپنے ذکر کو مشروع قرار دیتے ہوئے فرمایا: ﴿لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۚ فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ۝۲۸ۡ: تاکہ وہ اپنے لیے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کریں، اور چند متعین دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام سے ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیا ہے، پس تم لوگ اس کا گوشت کھاؤ اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔
جمہور مفسرین کے یہاں ایامِ معلومات سے مراد عشرہء ذی الحجہ کے ایام ہیں,  اور اگر ایام معلومات سے مراد قربانی کے ایام ہیں پھر بھی دسواں دن یوم النحر اس عشرہ  میں داخل ہے۔
امام بخاری فرماتے ہیں: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ﴿وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ﴾: أَيَّامُ الْعَشْرِ۔ ﴿وَالْأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ﴾: أَيَّامُ التَّشْرِيقِ۔ (بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (اس آیت) ”اور اللہ تعالیٰ کا ذکر معلوم دنوں میں کرو“ میں ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور «أيام المعدودات» سے مراد ایام تشریق ہیں۔
حافظ صلاح الدین یوسف V مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:  ایام معلومات سے مراد ‘ ذبح  کے ایام "ایامِ تشریق" ہیں, جو یوم النحر (1۰ ذی الحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں یعنی 11, 12 اور 13 ذو الحجہ۔ عام طو رپر ایامِ معلومات سے عشرہء ذو الحجہ اور ایامِ معدودات سے ایامِ تشریق مراد لیے جاتے ہیں , تاہم یہاں "معلومات" جس سیاق میں آیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایامِ تشریق مراد  ہیں ۔ واللہ اعلم۔
3- عشرہء ذو الحجہ کا حرمت والے مہینہ میں ہونا , چوں کہ ذو الحجہ کا مہینہ چار مقدس اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ ان چار مہینوں کی جو فضیلت کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے گویا کہ وہ فضیلت اس عشرہ کی بھی ہے۔
عَنْ  أَبِي سَعِيدٍ الخدری I, قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" أَلَا إِنَّ أَحْرَمَ الْأَيَّامِ يَوْمُكُمْ هَذَا, أَلَا وَإِنَّ أَحْرَمَ الشُّهُورِ شَهْرُكُمْ هَذَا , أَلَا وَإِنَّ أَحْرَمَ الْبَلَدِ بَلَدُكُمْ هَذَا , أَلَا وَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ , كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا, فِي شَهْرِكُمْ هَذَا, فِي بَلَدِكُمْ هَذَا, أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ"؟ قَالُوا: نَعَمْ, قَالَ: "اللَّهُمَّ اشْهَدْ". (رواہ ابن ماجہ: 3931- وصححہ الألبانی)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا: ”آگاہ رہو! تمام دنوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ دن ہے، آگاہ رہو! تمام مہینوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ (ذو الحجہ کا)  مہینہ ہے، آگاہ رہو! شہروں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ شہر ہے، آگاہ رہو! تمہاری جان، تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں، آگاہ رہو! کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام نہیں پہنچا دیا“؟، لوگوں نے عرض کیا: ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”اے اللہ تو گواہ رہ“۔
4- اس عشرہ میں کئی عظیم فضیلت والے ایام بھی ہیں جن کی وجہ سے اس عشرہ کی فضیلت دو چند ہو جاتی ہے, جیسے یوم الترویہ, یومِ عرفہ (سب سے زیادہ حرمت والا دن), یوم النحر(قربانی کا دن), لیلۃ المذدلفہ۔ ان ایام کی اپنی اپنی فضیلت ہے خاص طور سے عرفہ کے دن کی بڑی فضیلت ہے, اس دن روزہ رکھنے والے کے اگلے پچھلے دو سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں, اتنی عظیم فضیلت کا دن اس عشرہ میں وارد ہےجس سے اس عشرہ کی فضیلت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
5- اس عشرہ کے ایام دنیا کے سب سے افضل ایام ہیں, یہاں تک کہ ان ایام کے اعمال اللہ تعالى کو دیگر ایام کے اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔
عن جابرٍ رضي الله عنه؛ أن رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال: "أفضلُ أيامِ الدنيا العشرُ -يعني: عشرَ ذي الحجةِ-". قيل: ولا مثلُهن في سبيلِ الله؟ قال: "ولا مثلُهن في سبيلِ الله، إلا رجلٌ عَفَّرَ وجهه بالتراب" الحديث.
دنیا کے سب سے بہترین ایام عشرہء ذو الحجہ کے ایام ہیں , کہا گیا: کیا جہاد فی سبیل اللہ کے ایام بھی اس کے جیسے نہیں ہیں؟ فرمایا: نہیں, جہاد فی سبیل اللہ کے ایام  بھی اس کے جیسے نہیں ہیں, ہاں مگر یہ کہ کوئی آدمی اپنا چہرہ خاک آلود کر لے یعنی وہ شہید ہو جائے  تو اور بات ہے۔
قال الألبانی فی صحیح الترغیب: [صحيح لغيره] رواه البزار بإسناد حسن، وأبو يعلى بإسناد صحيح، ولفظه:
قال: "ما من أيامٍ أفضل عند الله من أيام عشر ذي الحِجَّة". قال: فقال رجل: يا رسول الله! هن أفضل أم عدتهن جهاداً في سبيل الله؟ قال: "هُنَّ أفضلُ مِن عِدَّتِهنَّ جهاداً في سبيل الله، إلا عفيرٌ يُعَفِّرُ وجهه في التراب" الحديث. ورواه ابن حبان في "صحيحه".
ابو یعلى کی روایت میں اس طرح ہے: عشرہء ذو الحجہ کے ایام سے افضل اللہ کے نزدیک کوئی ایام نہیں ہیں, راوی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! عشرہء ذو الحجہ کے دن افضل ہیں یا جہاد فی سبیل اللہ کے؟ آپ  ﷺ نے فرمایا: عشرہء ذو الحجہ کے ایام جہاد کے ایام سے بھی افضل ہیں, ہاں مگر یہ کہ آدمی اپنے چہرے ہی کو خاک لود کر لے تو اور بات ہے۔ (اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے)۔
وعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: (وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذلك بشيء)
ترجمہ: سیدنا ابن عباس ﷠ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عشرہء ذوالحجہ میں عمل صالح  کرنا اللہ تعالى کواتنا زیادہ محبوب ہے کہ اتنا دیگر ایام میں نہیں, صحابہ کرام نے عرض کیا:  اے اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ سے بھی نہیں؟ آپ  نے فرمایا: ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں, مگر یہ کہ آدمی اپنی جان مال لے کر نکلے اور پھر کچھ واپس لیکر نہ لوٹے( یعنی سب کچھ لٹا دے, شہید ہو جائے تو اس کا عمل  یقیناً اللہ تعالى کو زیادہ  محبوب ہے)۔
معلوم ہوا کہ  عشرہ ذو الحجہ میں عمل کرنے والا شخص  اس مجاہد فی سبیل اللہ سے بھی افضل ہےجو اپنی جان ومال لیکر واپس آ جائے۔ اور اس مدت میں کئے جانے والے اعمال کا اجر بہت عظیم ہوگا۔
عشرہ ذو الحجہ میں کئے جانے والے بعض اعمال:
1- حج وعمرہ:  حج کا سب سےاہم رکن وقوفِ عرفہ بھی اسی عشرہ میں آتا ہے نیز عمرہ کرنا بھی ان ایام میں زیادہ ثواب کا باعث ہےاس لئے صاحبِ استطاعت کو چاہئے کہ وہ اس مدت میں اس عظیم عبادت کا اجر وثواب حاصل کرنے کی کوشش  کرے۔
2- روزہ: پیر اور جمعرات کا روزہ, بالخصوص عرفہ کا روزہ رکھنا بڑی فضیلت کا باعث ہے, حدیث پاک  میں اس کی بہت عظیم فضیلت آئی ہے چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: «صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ» (صحیح مسلم: 1162) ترجمہ: "عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے"۔
3- صلاۃ: نماز اسلام کا دوسرا عظیم رکن ہے اس لئے ایک مسلمان کو ویسے تو ہمیشہ  نماز  با جماعت کا پابند ہونا چاہئے لیکن ان ایام میں نماز باجماعت کا خصوصی التزام کرنا چاہئے ۔ نیز نفلی نماز جیسے سنن رواتب, تہجد اور  چاشت  کی نماز کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ۔
4- صدقہ وخیرات: صدقہ ایک عظیم عبادت ہے جو انسان کو مرنے کے بعد بھی نفع پہنچاتی رہتی  ہے, جیسا کہ  حدیث پاک میں ہے: عَنْ  أَبِي هُرَيْرَةَ I: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ، إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ". (رواہ مسلم)
‏‏‏‏ ترجمہ:  سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو اس کے لیے دعا کرے ۔“
معلو م ہوا کہ صدقہ کا فائدہ انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے اس لئے ان ایام میں صدقہ وخیرات کا خصوصی خیال رکھا چاہئے ۔ انسان مرنے کے وقت بھی تمنا کرتا ہے کہ اے کاش کہ مجھے تھوڑی زندگی اور مل جاتی تو میں صدقہ کرتا۔
اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝۰ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝۱۰, (سورۃالمنافقون: 1۰) اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو  کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا ؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں ہوجاؤں۔
عَنْ  أَبِي هُرَيْرَة I، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ". ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”صدقہ دینے سے کو ئی مال نہیں گھٹا۔
5- ذکر واذکار: ذکر واذکار کی کتاب وسنت میں بڑی فضیلت وارد ہے بالخصوص ان ایام میں۔
عن ابن عباس L مرفوعا: "ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من أيام العشر, فأكثروا فيهن من التسبيح والتحميد والتكبير والتهليل". أخرجه الطبرانى فى "المعجم الكبير" (3/110/1)۔
ترجمہ: اللہ کے نزدیک ایامِ عشر سے زیادہ عظیم کوئی اور ایام نہیں اور نہ ہی دیگر ایام میں کوئی عمل اتنا محبوب ہے جتنا ان دنوں میں ہے لہذا کثرت سے تسبیح تحمید تکبیر اور تہلیل کیا کرو۔  (اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے)۔
اس حدیث میں جن چار کلمات کو پڑھنے کی رغبت دلائی گئی ہے دوسری حدیث میں ان کلمات کو افضل الکلام اور احب الکلام کہا گیا ہے۔
عن سمرة بن جندب I قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أَفْضَلُ الْكَلَامِ أَرْبَعٌ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ"۔ وفي رواية: "أَحَبُّ الْكَلَامِ إِلَى اللَّهِ أَرْبَعٌ، سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ". (رواه مسلم 2137)۔
سمرہ بن جندب ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  افضل کلام چار ہیں، سبحان اللہ، الحمدللہ، لا الہٰ الا اللہ، اللہ اکبر۔  ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ”سب سے زیادہ پسند اللہ تعالیٰ کو چار کلمے ہیں «سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ» ان میں سے جس کو چاہے پہلے کہے کوئی نقصان نہ ہو گا۔
قال الامام البخاری: كَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا وَكَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ خَلْفَ النَّافِلَةِ (بَابُ فَضْلِ الْعَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ). ترجمہ:  ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر (تکبیرات) سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔
ان کے علاوہ اور بہت سارے اعمال ہیں جو ان ایام میں کرنے چاہئے, مثلاً:
توبہ استغفار, درود وسلام, تلاوت ِقرآن پاک,  سلام کو عام کرنا, کھلانا کھلانا,  برالوالدین, صلہ رحمی , امر بالمعروف والنہی عن المنکر, پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک, مہمان نوازی, میاں بیوی کے حقوق کی ادائیگی,  غض بصر, ایفاء عہد, یتیم ومسکینوں کا خصوص خیال رکھنا,  عید الاضحى کی تیاری اور اس کی ادائیگی , قربانی کی تیاری اور اس کی ادائیگی, صفائی ستھرائی کا خیال, بیماروں کی بیمار پرسی, کسبِ حلال کی کوشش کرنا, تعاون على البر والتقوى, تعلیم الاولاد۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں عربی کی ویب سائٹ صید الفوائد  سے بنیادی طور پر مدد لی گئی ہے۔
****


اعداد: ابو عدنان علی محمد المحمدی المدنی
24 ذو القعده 1441هـ بروز جمعرات موافق 16 جولائي 2020م

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں