ٹائم اور کلنڈر

آ تجھ کو بتاؤں تیری منزل کا راستہ

بسم الله الرحمن الرحيم
آ تجھ کو بتاؤں تیری منزل کا راستہ
از قلم : ابو عدنان علی محمد المحمدی
اللہ تعالى نے انسان کی تخلیق فرما کراس کو جو مقام ومرتبہ عنایت فرمایا,  جو عزت وعظمت بخشی آج انسان اسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے, اس  کے حصول کی خاطر   دوسروں کے حقوق کی پروا کئے بغیر   خون پسینہ ایک کر رکھا ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالى نےاس عظمت رفتہ کی بحالی کاراز قرآن کریم میں متعدد اسلوب میں بیان فرمایا ہے چناچہ ارشاد باری تعالى ہے: ﴿وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ١٣٩ ([1]) ترجمہ:    اور نہ تم ہمّت ہارو  اور  نہ غم کھاؤ  , حقیقت بہرحال یہی ہے کہ  تم ہی سربلند رہو گے اگر تم واقعی سچے مومن ہو ۔  آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر بندہء   مومن  بلند ہمتی, پختہ ارادہ, عزم مستحکم کو اپنے دل میں جگہ دے دے توسربلندی خود اس کا قدم چومےگی, لیکن سچا ایمان اور رب پربھروسہ اولین شرط ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے:﴿ فَإِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُتَوَكِّلِينَ١٥٩([2]) ترجمہ: پھر جب تم  کسی کام کا عزم مصمم کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہےجو اس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ایمان, توکل, عزم مصمم, یقین محکم  کامیابی وسربلندی کے زریں اصول ہیں, نبی كائنات  علیہ الصلاۃ والسلام نے لوگوں کو سب سے پہلے اسی ایمان ویقین کی تعلیم دی, فرمایا : [ أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا]   لوگو ! "لاإلہ إلا اللہ " کہو,  فلاح وبہبودی تمہارا قدم چومےگی۔ بقول شاعر: ع
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

چناچہ اللہ اور اس کے رسول نےجہاں ہمیں ایمان وتوکل, عزم مستحکم کی تعلیم دی وہیں ہمیں مایوسی وپزمردگی, بزدلی وبےہمتی جیسے امراض سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے, ارشاد باری تعالى ہے:
﴿وَٱتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَأَ ٱلَّذِيٓ ءَاتَيۡنَٰهُ ءَايَٰتِنَا فَٱنسَلَخَ مِنۡهَا فَأَتۡبَعَهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ فَكَانَ مِنَ ٱلۡغَاوِينَ١٧٥ وَلَوۡ شِئۡنَالَرَفَعۡنَٰهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُۥٓ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُۚ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلۡكَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَثۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ‍َٔايَٰتِنَاۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ١٧٦([3])  ترجمہ: اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ۔ اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا تو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ لہذا  آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ غور وفکر کریں۔
            معلوم ہوا کہ جو شخص رب کی آیتوں سے روگردانی کرے, نفسانی خواہشات کی غلامی کرے, وہ اس کُتّے کی طرح ہے جو ہر حال میں ہانپتے رہتا ہے, بزدلی وپژمردگی اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چنانچہ نبی کریم r نے ہمیں بلند ہمتی کی ترغیب دیتے ہوئے اور بزدلی و بے ہمتی سے  ڈراتے ہوئے   فرمایا: [احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ]([4])، نفع بخش چیزوں کے حریص بنو, اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رب سے مدد طلب کرو, اور بے بسی کو اپنا شیوہ نہ بناؤ, اتنا ہی نہیں بلکہ عاجزی, بے بسی اور سستی سے رب کی پناہ  طلب کرنا بھی سکھلایا,  [اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، الخ] ([5])   اے اللہ  میں بے بسی, سستی اور بزدلی سےتیری پناہ چاہتا ہوں۔ پرعزم ومستحکم ارادوں کی ترغیب دیتے ہوئے مزید فرمایا: ( إن الله تعالى يحب معاليَ الأمور وأشرافَها، ويكره سفسافها) ([6]) اللہ تعالى عالی مرتبت و ذوشرف کاموں کو پسند فرماتا ہے , اور معمولی, بے کار وحقیر کاموں کو ناپسند فرماتا ہے۔  مؤمنین میں ہمت کی روح پھونکتے ہوئے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَبِيَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةٌ، فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فَلْيَفْعَلْ»([7])  یعنی اگر قیامت آ جائےاور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو , قیامت واقع ہونے سے پہلے پہل اگر تو اسے بونے کی طاقت رکھتاہے تو چاہئے کہ اسے بو دے۔   مطلب یہ کہ اگر قیامت آجائے تب بھی نیکی اور بھلائی کے کاموں سے ہمّت نہ ہارنا۔
              محترم قارئین! عالی ہمت , نیک ارادوں , واخلاص نیت کے ذریعہ ایک مومن بندہ بسا اوقات وہ عالی  مقام حاصل کر لیتا ہے جسے کافر شخص بواسطہ عمل کے بھی حاصل نہیں کر پاتا, آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس حقیقت کا بھی جائزہ لیتے ہیں, ارشاد نبوی  صلى اللہ علیہ وسلم ہے : (فمن هَمَّ بحسنة فلم يعملها كـتبها الله له عنده حسنة كاملة)([8]).  یعنی جس نے نیکی کا پختہ ارادہ کیا اور وہ اسے نہ کر سکا, اللہ تعالى اس کو اپنے پاس کامل نیکی لکھ دیتا ہے۔ اور ایک دوسری جگہ فرمایا: (مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ، بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ، وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ.)([9])، جس نے اللہ  تعالى سے سچی  نیت كے ساتھ شہادت کی موت کا  سوال کیا اللہ تعالى اس کو شہداء کی منازل  پہ پہنچا دیتا ہے , گرچہ وہ بستر مرگ پہ ہی کیوں نہ مرا ہو۔ اسی طرح آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس مجاہد کے بارے میں  جس نے جہاد کی پوری تیاری کرلی ہو فرمایا: (قَدْ أَوْقَعَ اللَّهُ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ) ([10]) اللہ تعالى نے اس کو اس کی نیت کے بقدر اجر وثواب  عنایت فرما دیاہے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سےبھی  ہوتی ہے جس میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم  نے  غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے بعض معذور صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا: (إنَّ بِالمَدِينَةِ لَرِجَالاً مَا سِرْتُمْ مَسِيراً، وَلا قَطَعْتُمْ وَادِياً إِلا كَانُوا مَعَكُمْ، حَبَسَهُمُ المَرَضُ». وفي رواية: «حَبَسَهُمُ العُذْرُ». وفي رواية: «إِلا شَرَكُوكُمْ في الأجْرِ») ([11]). یقینا مدینہ میں چند ایسے لوگ رہ گئے ہیں جنہوں نے کوئی سفر نہیں کیا, اور نہ ہی کوئی وادی طے کی, مگر وہ تمہا رے ساتھ ہیں, دوسری روایت کے مطابق اجر وثواب میں تمہارے شریک ہیں, کیوں کہ عذر یا بیماری  نے ان کوتمہارے ساتھ آنے سے روک دیا تھا۔ مذکورہ نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اگر ہم کھوئی ہو عظمت کو پھر سے بحال کرنا چاہتے ہیں تواس کا ایک ہی اصول ہے کہ
منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی                                       اتنا عظیم ہو جا کہ منزل تجھے پکارے
 اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری رگ وپے  میں وہ پیغام خون کی طرح سرایت ہو جائے جس کو نبی پاک صلى اللہ علیہ وسلم نے  پہلے پہل سکھلایا تھا , اس طور پر  کہ  اس عظیم کلمہ "لا الہ الا اللہ" کی صداء  ہماری زبان  سے بلند  ہو اور اعضاء وجوارح اس کے تقاضوں پر عمل پیرا   ہوں, لیکن اگر زباں سے اس کلمہ کا لاکھ وِرد کرتے رہیں مگر اس کے تقاضوں کو پورا نہ کیا تویہ وِرد بے سود ہے ,
زبان سے کہہ بھی دیا  "لاالہ" تو کیا حاصل                                               دل و نگاہ  مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہم اگر اپنی گمشدہ عظمت کو تلاش کرنا چاہتے ہیں, اپنی منزل مقصود کو حاصل کرنا چاہتے ہیں توہم کو اتنا عظیم بننا پڑیگا کہ اس عظیم ذمہ داری کا بار اٹھانے کی نہ صرف  ہمت ہم میں پیدا ہو بلکہ وہ حوصلہ بھی ہم میں جنم لے کہ:
آندھیوں میں بجلیوں میں نرگہ ہے طوفان میں                                   کود پڑتا تھا مسلماں بے دھڑک میدان میں
یاد کرو اس وقت کو  جب نبی پاک صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین  گوئی ثابت ہوئی کہ تم ایک دن ضرور بہ ضرور کیسر وقصرى کے کنگن پہنوگے, اور پھر وہ وقت بھی آیا , کہ اپنے کانوں سے سننے والوں نے اس پیشین گوئی کی حقانیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا, ایک طرف پیشین گوئی کی حقانیت کی خوشی تو دوسری طرف دنیا  دا ری کے در وازوں کے کھل جانے کا غم, ... کیوں ؟ اس لئے کہ وہ  اپنی آخرت کو سنوارنے کے خاطر  دنیا کو خاطر میں نہ لاتے تھے, کسی بھی رنج وغم, حوادث والم کی پروہ کئے بغیر اپنے شب وروز اس طرح بسر کر رہے  تھے کہ :
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے                              اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
اے عظمت رفتہ کے طلبگارو! کیا تم کو اپنی منزل مقصود کا پتہ نہیں؟  اگر پتہ ہے کہ تمہاری وہ منزل دنیا میں عزت کی زندگی بسر کرنا, آخرت میں جنت الفردوس جانا ہے تو کیا تم کو اس عظیم منزل کے راستہ کا پتہ نہیں؟ ہاں اگر پتہ ہے کہ اس کا راستہ کتاب وسنت کی شاہراہ ہے تو کیا تم کو اس عظیم شاہراہ پر چلنے کا طور طریقہ نہیں معلوم؟ ہاں اگر اس عظیم شاہراہ پر چلنے کا سلیقہ بھی معلوم ہے تو ویسے چلتے کیوں نہیں؟ اگر طور طریقہ نہیں معلوم تو سن لو امام مالک کی زبانی: "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح بها أولها"   یعنی اس امت کےآخری لوگوں کی اصلاح بھی اسی نسخہ سے ہوگی جس کے ذریعہ پہلے پہل لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔
معلوم ہوا کہ منزل تک پہنچنےکے لئے منزل کے راستہ پہ چلناہوگا, اور منزل کے راستہ پہ چلنے کے لئے راستہ کے اصول وضوابط کی رعایت کرنی ہوگی, بالکل اسی طرح جس طرح ایک ڈرائیور اپنی منزل تک  پہنچنے کے لئےروڈ پر دئے ہوئے اشاروں کا بھر پور خیال رکھتا ہے, اشارے اس کی جس طرف رہنمائی کرتے ہیں وہ اسی طرف  چل پڑتا ہے,علاوہ ازیں  جب ریڈ لائٹ  (Red Light) جلتی ہے رک جاتا ہے ہری بتی (Green Light)  جلنے  پر چل پڑتا ہے, یہ ساری پابندیاں وہ کیوں کرتا ہے؟ تاکہ اپنی منزل مقصود تک صحیح سلامت پہنچ جائے۔ اب فیصلہ اپنے آپ پر ہے کہ ہم دنیاوی منزل تک پہنچنے کے لئے کس قدر اہتمام اور پابندیاں کرتے ہیں اور آخرت کی منزل تک پہنچنے کے  لئے کس قدر؟ 
مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک                                  جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کو سمجھنے اور اس پر چلنےکی توفیق عطا فرمائے ,  آمین ثم آمین۔

([1]) آل عمران: ١٣٩
([2]) آل عمران: 159
([3])  الأعراف: ١٧٥ – ١٧٦
([4]) صحيح مسلم : حديث نمبر: 2664
([5]) صحيح  البخاري, ح :2668 وصحيح مسلم, ح:2706
([6])  معجم الكبير للطبراني وصححہ الالبانی فی صحیح الجامع حدیث نمبر 1890,
([7]) مسند احمد , ح: 13004 وقال الأرنؤوط: اسنادہ صحیح على شرط مسلم.
([8]) صحيح البخاري ، ح: 6126, وصحيح مسلم, ح: 131
([9]) صحيح مسلم ،  ح: 1909
([10])  مستدرك للحاكم، ح:3001، حاکم نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے ۔
([11]) صحيح البخاري, ح:  4161  و  صحيح مسلم, ح: 1911.
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں