ٹائم اور کلنڈر

صبر وشکر کا مہینہ رمضان المبارک



بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ



صبر وشکر کا مہینہ رمضان المبارک


از قلم: ابو عدنان علی محمد المحمدی

            رمضان المبارک کا مہینہ جہاں بے شمار  برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے وہیں صبر وشکر کا بھی مہینہ ہے, صبر کی تدریب ومشق اور اسکی فضیلت کی حصول یابی کا بھر پور موقع روزےدار کو اس مہینہ میں  میسر ہوتا  ہے , اسی طرح  اللہ تعالى کی بے شمار نعمتوں کی شکر گزاری کا موقع بھی ملتا ہے , اس طرح رمضان کا با برکت مہینہ صبر وشکر دونوں کامہینہ ہے اور دونوں کی رمضان سے بڑی گہری مناسبت ہے, آئیے پہلے صبر کی رمضان سے کیا مناسبت ہے,  اس کو جاننے سے پہلے اس کے معنی ومفہوم  کو جان لیں۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ صبر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں: فَالصَّبْرُ: حَبْسُ النَّفْسِ عَنِ الْجَزَعِ وَالتَّسَخُّطِ. وَحَبْسُ اللِّسَانِ عَنِ الشَّكْوَى. وَحَبْسُ الْجَوَارِحِ عَنِ التَّشْوِيشِ.

            جزع  فزع اور ناراضگی سے نفس کو روکے رکھنا, اور زبان کو شکوہ شکایت سے روکنا, اعضاء وجوارح کو تشویش سے روکے رکھنا۔

صبر کے معنى ومفہوم کے بعد سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ صبر کے بغیر رمضان کے صیام وقیام کا تصور بھی ممکن نہیں ہے, ایک روزے دار جب روزہ کی حالت میں بھوک وپیاس کا احساس کرتا ہے تو صبر ہی کے ذریعہ اس کا مقابلہ کرتا ہے , اپنی جائز خواہشات کو ترک کرنے کے لئے صبر ہی کا سہارا لیتا ہے, معصیت وگناہوں کی بیماری سے بچنے کے لئے صبر ہی کو اپنا مداوا بناتا ہے,  راتوں کو لمبے لمبے قیام , تہجد وتراویح  میں صبر ہی اس کو قوت بخشتا ہے, اس طرح رمضان کا مہینہ سراپا صبر کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالى نے صبر کرنے والے صابر اور روزہ رکھنے والے روزدار کی جزاء میں بھی بہت حد مطابقت ویکسانیت رکھی ہے, اللہ تعالى صبر کرنے والوں کی جزا کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:   ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجۡرَهُم بِغَيۡرِ حِسَابٖ١٠ [الزمر: 10] « جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بےشماراجر و ثواب ملے گا»اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے صبر کرنے والےکے لئے بے شمار اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے, او ر اسی سے ملتا جلتا اجر وثواب کا وعدہ اللہ تعالى نے روزے دار سے فرمایا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد  ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: "إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فِيهِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ". (رواہ مسلم برقم: 2707/1151)

‏‏‏‏ ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  ابن آدم کے ہر عمل کا اجر وثواب کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے یہاں کہ ایک نیکی  پر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا کر اجر وثواب دیا جاتا ہے, اللہ تعالى فرماتا ہے : سوائے روزے کے اس لئے کہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا  (یعنی بغیر حساب وکتاب کے) اس لئے کہ روزہ دار اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میرے لئے ترک کرتا ہے۔ اور  روزہ دار کے لئے خوشی کےدو  وقت  ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت , اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالى کو مسک سے بھی زیادہ محبوب ہے۔

            مذکورہ آیت اور حدیث  سے صبر کرنے والے اور روزہ دار کی جزا میں مطابقت معلوم ہوئی, صبر کرنے والے کو جب عام دنوں  میں بے شمار اجرو ثواب کی بشارت ہے تو پھر رمضان میں اس کے اجر وثواب کا کیا پوچھناکہ جس میں نیکیوں کا ثواب بڑھ جاتا ہے, عُمرہ کرنے والےکو حج کے برابر یا نبی کریم ﷺکے ساتھ حج کرنے کا ثواب ملتا ہے, امام کے ساتھ قیام اللیل یا تراویح پڑھنے والےکو  رات بھر تہجد پڑھنے کا ثواب ملتا ہے, رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کی عبادتوں کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادتوں سے بھی زیادہ  ملتا ہے۔ غرض یہ کہ جب عام نیکیوں کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے تو روزہ جو کہ فرض ہے اس کے اجر وثواب  کا کیا کہنا؟ اس لئے روزہ دار صرف روزہ    ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ صبر کی بے شمار فضیلتوں کو بھی حاصل کرتا ہے,یا یوں کہیں کہ صائم فقط صائم ہی نہیں ہوتا بلکہ صابر بھی ہوتا ہےاس لئے صیام کے ساتھ صبر کی فضیلتوں کا بھی مستحق ہوتا ہے, صبر کرنےو الوں کو اللہ تعالى نے بے حساب بدلہ دینے کا وعدہ  فرمایا ہے,اور صبر كا ذكر الله نے صلاة  کے ساتھ فرما کر ان کے ذریعہ  مدد طلب کرنے کا مومنین کو حکم دیا اور پھر صبر کرنے والوں کے لئے اپنی معیت ونصرت  کا وعدہ فرمایا, اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَعِينُواْ بِٱلصَّبۡرِ وَٱلصَّلَوٰةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ١٥٣ [البقرة: 153] «اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے»

اس آیت کریمہ  میں اللہ تعالى نے  "إن اللہ مع الصابرین" فرمایا , یہ نہیں کہا: "إن اللہ مع الصابرین والمصلین ", اس لئے کہ مصلین صابرین میں داخل ہیں ایسے ہی  صائمین بھی صابرین میں داخل ہیں یا بلفظ دیگر  صابرین کا لفظ مصلّین وصائمین سب کو شامل ہے۔

            غرض یہ کہ روزہ رکھنے والا صبر کی تینوں قسموں  پر عمل کر لیتا ہے , اللہ کی اطاعت پر بھی صبر کرتا ہے اور معصیت ونافرمانی سے بھی صبر کرتا ہے اور اس دوران ہونے والی  پریشانیوں اور مصیبتوں پر بھی صبر کرتا ہے, اس طرح صبر کی تینوں قسمیں اس مبارک مہینہ میں اس کے لئے  جمع ہو جاتی ہیں۔

            اب  آئیے رمضان سے شکر کا کیا رشتہ ہے اس کو بھی جان لیتے ہیں , اللہ رب العالمین نے جب قرآن پاک میں رمضان اور نزولِ قرآن کا ذکر فرمایا تو وہیں شکر کا بھی تذکرہ فرمایا, ارشاد باری تعالى ہے:   ﴿شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ١٨٥ [البقرة: 185] «(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ اللہ تعالى تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لئے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ تعالى نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کر واور اس کا شکر کرو»

            اس آیت کریمہ سے رمضان اور شکر کا تعلق بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ نے رمضان کے روزوں کا حکم دیااور پھر مریض اور مسافر کے لئے رخصت دیتے ہوئےآسانی کا معاملہ  فرما کر کہا: "لعلکم تشکرون":  تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بندے بن جاؤ, اسی طرح ایک روزے دار بندہ جب اپنے روزے کو مکمل  کرتا ہے تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے کہ شکر ہے  میرے رب کا کہ جس نے  مجھے روزہ رکھنے اور اسے مکمل کرنے کی توفیق بخشی , ایسے ہی جب روزہ دار دن بھر بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو اس کو اللہ تعالى کی نعمتوں کی قدر معلوم ہوتی ہے, اور پھر ان نعمتوں پر اللہ تعالى کا شکر ادا کرتا ہے, اس طرح  سے روزہ دار اپنے دل وزبان اور اعضاء وجوراح سے اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے, اور شکر کی فضیلت میں وارد  بشارتوں کا مستحق ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالى نے ایسے ہی شکرگزار بندوں کے لئےبہ شکرِ عِوض نعمتوں میں بڑھوتری  کا وعدہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:  ﴿وَإِذۡ تَأَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡۖ وَلَئِن كَفَرۡتُمۡ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٞ٧ [إبراهيم: 7] «اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب بھی سخت ہے»۔

شکرکی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شکرادا کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے جبکہ ناشکری سے منع فرمایا ہے, ارشاد باری تعالى ہے: ﴿فَٱذۡكُرُونِيٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِي وَلَا تَكۡفُرُونِ١٥٢ [البقرة: 152] « سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو»

اور اسی تعلق سے دوسری جگہ اللہ تعالى نے ارشاد فرمایا: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقۡنَٰكُمۡ وَٱشۡكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ١٧٢ [البقرة: 172] «اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائیں ہیں ان کو کھاؤ اور اگر تم الله ہی کی عبادت کرتے  ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو»

اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَٰلٗا طَيِّبٗا وَٱشۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ١١٤ [النحل: 114] «پس اللہ نے جو تم کو حلال طیّب رزق دیا ہے اسے کھاؤ۔ اور الله کی نعمتوں کا شکر کرو۔ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو»

مذکورہ دونوں آیتوں سے معلوم ہوا  کہ جس نے اللہ تعالى کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا کیا اس نے اس کی عبادت کی, اور جس نے اس کا شکر ادا نہیں کیا  گویا وہ اس کی عبادت کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔

ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿إِنَّمَا تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوۡثَٰنٗا وَتَخۡلُقُونَ إِفۡكًاۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَعۡبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَمۡلِكُونَ لَكُمۡ رِزۡقٗا فَٱبۡتَغُواْ عِندَ ٱللَّهِ ٱلرِّزۡقَ وَٱعۡبُدُوهُ وَٱشۡكُرُواْ لَهُۥٓۖ إِلَيۡهِ تُرۡجَعُونَ١٧ [العنكبوت: 17] «تو تم اللہ  کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے اور طوفان باندھتے ہو تو جن لوگوں کو تم خدا کے سوا  پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے پس خدا ہی کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے»۔ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالى نے عبادت اور شکر دونوں کا ایک ساتھ حکم دیاہے  جس سے شکر کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالى نے شکر کو ایمان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے, ارشاد ربانی ہے: ﴿مَّا يَفۡعَلُ ٱللَّهُ بِعَذَابِكُمۡ إِن شَكَرۡتُمۡ وَءَامَنتُمۡۚ وَكَانَ ٱللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمٗا١٤٧ [النساء: 147] «اگر تم (اللہ کے)  شکرگزار رہو اور (اس پر) ایمان لے آؤ تو اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا۔ اور اللہ تو (شکر گزاروں کا) قدردان اور سب کچھ جاننے والا ہے»۔

شکر کا ایمان کے ساتھ عدم عذاب کے لئے مشروط ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شکر ایمان کا ہی حصہ ہے , جیسا کہ حدیث صہیب بن سنان( جس کا ذکر آگے آ رہا ہے) بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح سورہ عنکبوت کی مذکورہ آیت میں عبادت اور شکرکا یکبارگی حکم بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہےکہ شکر کے بغیر عبادت ممکن نہیں بلکہ شکر عبادت کی روح ہے یا عین عبادت ہے جو کہ انسانی تخلیق کا اولین مقصد ہے اور یہ چیز اللہ تعالى کے اس فرمان سے بھی واضح ہو جاتی ہے :  ﴿وَٱللَّهُ أَخۡرَجَكُم مِّنۢ بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ شَيۡ‍ٔٗا وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡأَبۡصَٰرَ وَٱلۡأَفۡ‍ِٔدَةَ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ٧٨ [النحل: 78] «اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اور اس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور اُن کے علاوہ اور) اعضا بخشے تاکہ تم شکر کرو» ۔ اس آیت کریمہ سے انسانی تخلیق  کا مقصد معلوم ہوا  کہ انسان اپنے خالق کا شکر ادا کرے, جبکہ دوسری جگہ انس وجن کی تخلیق کا مقصد عبادت کو قرار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا عبادت اور شکر دونوں ہم  معنى ہیں یا دونوں لازم وملزوم  ہیں اس لئے کہ شکر کے بغیر عبادت ممکن نہیں اور عبادت کے بغیر شکر ممکن نہیں۔

شکر کی اہمیت کاانداہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالى نے اپنے نیک بندوں خصوصا انبیاء کو اس خوبصورت صفت سے متصف فرمایا ہے, چنانچہ اپنے پہلے نبی حضرت نوح علیہ السلام کے تعلق سے ارشاد فرمایا:  ﴿ذُرِّيَّةَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوحٍۚ إِنَّهُۥ كَانَ عَبۡدٗا شَكُورٗا٣ [الإسراء: 3] «اے اُن لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا۔ بےشک نوح (ہمارے) شکرگزار بندے تھے»

اور اسی پیاری صفت سےہمارے پیارے نبی  خاتم النبیین جناب حضرت محمد بھی متصف ہیں جیسا کہ صحیحین میں روایت وارد ہے:  عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ:" أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا"، فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔ عمر کے آخری حصہ میں (جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے (اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں اور پڑھتے) پھر رکوع کرتے۔

اس حديث سے معلوم ہوا نبی کریم  ﷺکس درجہ اللہ کے شکرگزار بندہ بننا چاہتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اللہ کے سب سے زیادہ شکر گزار بندے تھےاور  دیگر صحابہ کرام کو بھی آپ اس کی تعلیم دیتے اور انہیں وصیت فرماتے چنانچہ امام ابو داود  e روایت کرتے ہیں :  

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَقَالَ:" يَا مُعَاذُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے معاذ! قسم اللہ کی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، قسم اللہ کی میں تم سے محبت کرتا ہوں، پھر فرمایا: اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا: «اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك» اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما۔  رواہ ابو داود وصححہ الالبانی.

            مذکورہ آیات اور احادیث سے شکر  کی فضیلت واہمیت بخوبی واضح ہو جاتی ہے , اس لئے ہمیں رمضان المبارک جیسی عظیم نعمت پر اللہ رب العالمین کابکثرت شکرگزار ہونا چاہیے او راس نعمت کی قدر کرنی چاہیے, ہمیں اپنی زبان ودل اور اعضا وجوارح سے ہر ممکن اللہ جل شانہ کا شکر ادا کرنا چاہیے, رمضان کی قدر کرنے کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم رمضان کے روزوں کو اس کے آداب وضوابط کے ساتھ رکھیں , رمضان میں کثرت سے قرآن پاک کی تلاوت کریں اس لئےکہ  یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہےچوں کہ قرآن پاک جو کہ ہمارے لئے ہدایت نامہ ہے اسی مہینہ میں نازل ہوا اس لئے اس کی تلاوات کا بہ کثرت اہتمام کرنا چاہیے۔  اگر ہم صحیح معنوں  میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں, روزوں کو اسی کے لئے رکھتے ہیں تو ہم کو اسی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

آئیے اب اس حدیث پر سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں جس میں نبی کریم  ﷺ نے ان دونوں خصلتوں کو جمع فرما دیا اور مؤمن کے حال پر تعجب فرمایا کہ اس کے لئے ہر  حال میں خیر ہی خیر ہے۔

عَنْ صُهَيْبٍ بن سنان رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ".رواه مسلم برقم: (7500/ وبترقيم فؤاد عبد الباقي: 2999)

‏‏‏‏ سیدنا صہیب بن سنان  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  مومن کا بھی عجب حال ہے ۔ اس كا سارا  کا سارا معاملہ خیر ہے۔ یہ فضیلت مؤمن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔   اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب  اور خیر ہے۔

اس حدیث میں مؤمن کی دو حالت بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ خوش حالی میں ہوتا ہے تو اپنے منعم کا شکر ادا کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اگر تنگدستی میں ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتوں میں اس کے لئے خیرہی خیر ہے, شکر کرے تب خیر, صبر کرے تب بھی خیر۔اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کے دو حصے ہیں ایک صبر اور دوسرا شکر ۔ اور  دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں, صبر کے بغیر شکر نہیں , شکرکے بغیر  صبر  نہیں,  البتہ ایمان کے تفاوت کے ساتھ صبر وشکر میں کمی زیادتی ہو سکتی ہے۔

صبر وشکر کی اس مختصر سی فضیلت کے بعد آئیے رمضان المبارک سے ان کی مناسبت پر ایک نظر ڈالتے ہیں , رمضان المبارک کو پا لینا ہی  اللہ تعالى بہت بڑا انعام ہے جو کہ باعثِ شکر ہے, چوں کہ اس کا وجود ہی  بڑا بابرکت اور فضیلت والا ہے , جیسا کہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے رمضان کو پانے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے  ,امام ابن ماجہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:  

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ, أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ بَلِيٍّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيعًا , فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنَ الْآخَرِ , فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا فَاسْتُشْهِدَ , ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً ثُمَّ تُوُفِّيَ , قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ بَيْنَا أَنَا عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ , إِذَا أَنَا بِهِمَا فَخَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ , فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الْآخِرَ مِنْهُمَا , ثُمَّ خَرَجَ فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ , فَقَالَ: ارْجِعْ فَإِنَّكَ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ , فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ فَعَجِبُوا لِذَلِكَ , فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثُوهُ الْحَدِيثَ , فَقَالَ:" مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ" , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا كَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَيْنِ اجْتِهَادًا ثُمَّ اسْتُشْهِدَ, وَدَخَلَ هَذَا الْآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ, فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ:" وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ , فَصَامَ وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجْدَةٍ فِي السَّنَةِ" , قَالُوا: بَلَى , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ". رواه ابن ماجه برقم: 2925, وصححه الألباني.

طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دور دراز کے دو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ دونوں ایک ساتھ اسلام لائے تھے، ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا، تو محنتی نے جہاد کیا اور شہید ہو گیا، پھر دوسرا شخص اس کے ایک سال بعد تک زندہ رہا، اس کے بعد وہ بھی مر گیا، طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا، اور اس شخص کو اندر جانے کی اجازت دی جس کا انتقال آخر میں ہوا تھا، پھر دوسری بار نکلا، اور اس کو اجازت دی جو شہید کر دیا گیا تھا، اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آ کر کہا: تم واپس چلے جاؤ، ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، صبح اٹھ کر طلحہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے خواب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے بڑی حیرت ظاہر کی، پھر خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، اور لوگوں نے یہ سارا قصہ اور واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس بات پر تعجب ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! پہلا شخص نہایت عبادت گزار تھا، پھر وہ شہید بھی کر دیا گیا، اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل کیا گیا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اس کے بعد ایک سال مزید زندہ نہیں رہا؟، لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور زندہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک سال میں تو اس نے رمضان کا مہینہ پایا، روزے رکھے، اور نماز بھی پڑھی اور اتنے سجدے کئے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ تو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسی وجہ سے ان دونوں (کے درجوں) میں زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ دوری ہے۔

رمضان المبارک کے انعام وکرام کو پا لینے کے بعد ان انعامات کو باقی رکھنے کے لئے اللہ تعالى کی اطاعت وفرمابرداری پراور معصیت سے صبر کرنا انتہائی ضروری ہے, روزہ رکھنے کے لئے جہاں بھوک وپیاس پر صبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں نفسانی خواہشات پر کنٹرول کرنے کے لئے  بھی صبر ہی کا  سہارا لینا پڑتا ہے , اور ایسے ہی دیگر اطاعت وفرمابرداری کے لئے بھی صبر ہی سے مدد حاصل کرنی پڑتی ہے۔اس طرح صبر وشکر کا یہ مہینہ ایک صائم کو صابر وشاکر بنا  دیتا  ہے, اور ایک روزہ دار روزوں کی فضیلتوں کے علاوہ  صبر وشکر کی فضیلتوں کو بھی  پا لیتا ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں