ٹائم اور کلنڈر

خطبہء عید الفطر 1440ھ


بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

خطبہء عید الفطر 1440ھ

خطبہ مسنونہ کےبعد!

اللہ أکبر , اللہ أکبر , لا الہ إلا اللہ,  واللہ أکبر, اللہ أکبر , وللہ الحمد

اللہ أکبر کبیرا   والحمد للہ کثیرا  وسبحان اللہ بکرۃ  وأصیلا

 

تمام قسم کی حمد وثناء, تعریف وتوصیف اس اللہ جل شانہ کے لئے لائق وزیبا ہیں جس نے ہمیں یہ خوشی کا دن میسر فرمایا, بعدہ  صلاۃ وسلام کے انگنت نذرانے ہوں اللہ کے حبیب نبی آخر الزمان جناب حضرت محمد مصطفى پر کہ جنہوں نے بنی نوع ِانسان  کو  نہ صرف حقیقی خوشی وسرور سے روشناس کرایا, بلکہ اس کی حصول یابی کے اسباب وذرائع سے بھی  آگاہ فرمایا, جنہوں نے سسکتی بلکتی انسانیت کو مسکرانا سکھلایا, جنہوں نے بنتِ حوّاکو ایسے وقت میں  جینے کا حق دلایا جب اسے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا,  جنہوں نے فرحت وشادمانی کا ایسا نایاب طریقہ سکھلایا کہ جس میں  محض خوشی ومسرت ہی نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی عظیم عبادت بھی ہے,

یقینا آج کا دن ایک مومن کے لئے مسرت وانبساط  کا دن ہے, فرحت  وسرور کا دن ہے, خوشی وشادمانی کا دن ہے, خوشی کے اس عالم میں آنکھیں اشک بار ہوا چاہتی ہیں, کیوں؟ آخر کیا وجہ ہے جو  آبِ چشْم چھلکنا چاہتا ہے؟

اس فرحت وسرور  کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے فرمان الہی : کتب علیکم الصیام" کو اپنی عملی زندگی میں ڈھالا ہو,

اس خوشی کا احساس وہی شخص کر سکتا ہے جس نےگزرے ہوئے ایام میں"  لعکم تتقون" کی عملی تفسیر کی ہو ,

اس خوشی کو وہی شخص محسوس کر سکتا ہے جس نے صبر وشکر کے اس مہینہ میں "لعکم تشکرون" کو عملی جامہ  پہنایا ہو ,

برادرانِ اسلام ! خواتینِ ملت ! یقینا آج  کا دن خوشی کا دن ہے  لیکن کن کے لئے؟

 ماہِ رمضان کوغفلت میں گزارنے والوں کے لئے؟ نئے نئے کپڑا پہننے والوں کے لئے؟ نہیں نہیں ! حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «ليس العيد لمن لبس الجديد انما العيد لمن خاف الوعيد» عید اس کی نہیں جس نے نیا لباس پہن لیا، عید تو اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈر گیا۔  یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا۔

یہ دن خوشی کا دن ہے مومنین کے لئے , خوشی کا دن ہے متقیوں کے لئے, خوشی کا دن ہے صابرین وشاکرین کے لئے,  خوشی کا دن ہے صائمین کے لئے, کیوں ؟   اس لئے کہ آج  اس نے ایک عظیم فریضہ کی ادائگی مکمل کر لی ہے, آج اللہ تعالى نے اس  فریضہ کی تکلیف کو ختم کر دیا جس کا اسے مکلف کیا تھا۔

آج کے دن روزے دار خوش کیوں ہوتا ہے ؟ اسلئے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:

«...لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ...» الحدیث (متفق علیہ واللفظ لمسلم 1151)

‏‏‏‏            سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ....  روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کے افطار کے وقت، دوسری خوشی ملاقات پروردگار کے وقت .

            صحیح مسلم کی روایت میں الفاظ اس طرح بھی وارد ہیں:   «وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ».

"صائم کو دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو خوش ہوتا ہے وہ اپنے فطر سے، دوسرے خوش ہو گا اپنے روزے کے سبب سے  جس وقت وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا ۔“

معلوم ہوا کہ روزے دار کا روزہ اور افطار دونوں اُس کے لئے باعثِ مسرت ہیں , روزہ سے خوش ہوگا یوم الجزاء الاکبر  قیامت کے دن , اور افطار سے خوش  ہوتا ہے ایک تو ہر روز روزے سے افطاری کے وقت , دوسرے پورے رمضان سے افطار کی وقت یعنی عید الفطر کے دن  اس کو ہم یوم الجزاء الاصغر کہہ سکتے ہیں, کیوں کہ آج کا دن بھی روزے داروں کے  لئے جزاء کا  دن ہے, بدلے کا دن ہے, لیکن آج کا دن  اور جزاء قیامت کے دن  اور جزاء کے مقابلہ میں اصغر ہے۔

چنانچہ امام منذری رحمہ اللہ  روایت کرتے ہیں:  جب روزہ دار عید گاہ میں پہونچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے کہ ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہئے جنھوں نے اپنے کام پورے کر لئے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں اے ہمارے معبود، اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہو نا چاہئے کہ انھیں ان کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو کہ ان کے رمضان کے روزے اور تراویح کی وجہ سے میں ان سے خوش ہو گیا اور ان کو بخش دیا پھر بندوں سے خطاب کر کے فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھی بھلائی تم مجھ سے مانگوگے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا۔ اور جب تک تم مجھ سے خوف کھاتے رہوگے میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں سے در گذر کرتا رہوں گا۔ مجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے کہ نہ تمہیں ذلیل اور رسوا کروں گا، نہ مجرمین کے درمیان تمہیں فضیحت کروں گا، تم سب کو میں نے معاف کر دیا، تم نے مجھے راضی کرنا چاہا تو میں تم سے راضی ہوگیا۔ اس امت کے لئے انعام و بخشش کا یہ اعلان سن کر فرشتے بھی جھوم اٹھتے ہیں اور خوشیاں منانے لگتے ہیں۔(منذری)

اب آئیے دوسری خوشی کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ نہ ختم ہونے والی اور پہلى خوشی سے زیادہ اہم خوشی ہے:  فرحۃ عند لقاء ربہ / وفی روایۃ: حین یلقى ربہ فرح بصومہ: خوشی کا ایک وہ عالم ہوگا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔

قیامت کا دن ہوگا جب  بندوں کے حق میں فیصلہ سنایا جائے گا , روزہ آئے گا یا رب ! اس  بندہ کو میں نے کھانے پینے  اور  جائز خواہشات سے  منع کردیا تھا اے اللہ اس کے بارے میں میری شفارس قبول فرما, چنانچہ اللہ تعالى اس کی شفارس قبول فرمائےگا ۔

اللہ أکبر , اللہ أکبر , لا الہ إلا اللہ,  واللہ أکبر, اللہ أکبر , وللہ الحمد

نوجوانانِ اسلام  ! اپنی جوانی کی قدر کرو قبل اس کے کی یہ جوانی تم سے رخصت ہو جائے, پھر یہ نعمت کبھی دوبارہ ملنے والی نہیں ہے, اس لئے اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیے, اللہ کے نبی نے اس پر ابھارتے ہوئے ایک آدمی کو نصیحت فرمائی: "اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ"([1]).

            ترجمہ: " پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو! یعنی پانچ حالتیں ایسی ہیں کہ جب وہ موجود ہوں تو ان کو ان پانچ حالتوں سے غنیمت سمجھو جو زمانہ آئندہ میں پیش آنے والی ہیں (١) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو یعنی اپنے اس زمانہ کو غنیمت جانو اور اس سے پورا فائدہ اٹھاؤ جس میں تمہیں عبادت وطاعات کی انجام دہی اور اللہ کے دین کو پھیلانے کی طاقت وہمت میسر ہو۔ قبل اس کے کہ تمہارے جسمانی زوال کا زمانہ آجائے اور تم عبادت وطاعت وغیرہ کی انجام دہی میں ضعف وکمزوری محسوس کرنے لگو (٢) بیماری سے پہلے صحت کو یعنی ایمان کے بعد جو چیز سب سے بڑی نعمت ہے وہ صحت وتندرستی ہے، لہٰذا اپنی صحت وتندرستی کے زمانہ میں اگرچہ وہ بڑھاپے کے دور ہی میں کیوں نہ ہو، یعنی دینی ودنیاوی بھلائی وبہتری کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو، (٣) فقرو افلاس سے پہلے تونگری وخوشحالی کو (یعنی تمہیں جو مال ودولت نصیب ہے قبل اس کے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا موت کا پنجہ تمہیں اس سے جدا کردے تم اس کو عبادت مالیہ اور صدقات وخیرات میں خرچ کرو اور اس دولتمندی وخوشحالی کو ایک ایسا غنیمت موقع سمجھو جس میں تم اپنی اخروی فلاح وسعادت کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہو۔ (٤) مشاغل وتفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے وقت کی فراغت واطمینان کو۔ (٥) موت سے پہلے زندگی کو" ۔

            نواجوانِ اسلام! اپنی جوانی کی قدر کرو, جس نوجوان نے اپنی جوانی کو رب کی عبادت, اور اطاعت وفرمابرداری میں گزارا قیامت کے دن وہ عرشِ الہی کے سائے میں ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔

اللہ أکبر , اللہ أکبر , لا الہ إلا اللہ,  واللہ أکبر, اللہ أکبر , وللہ الحمد

خواتینِ اسلام, ماؤں اور بہنوں! اللہ تعالى نے آپ کو اسلام میں وہ عظیم مقام عطا فرمایا جو دنیا کی کسی عورت کو نہیں دیا, تم کوگھر کی ملکہ بنایا,تم کو دنیا کا سب سے بہترین متاع قرار دیا, (الدنیا کلہا متاع , وخیر متاع الدنیا المراءۃ الصالحۃ)  تمہارے قدموں کے نیچے جنت بنائی اس کے باوجود بھی جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی , اس لئے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ , اور وہ اعمال سر انجام دو جو جنت میں لے جانے کا سبب بنیں۔

اللہ أکبر , اللہ أکبر , لا الہ إلا اللہ,  واللہ أکبر, اللہ أکبر , وللہ الحمد

برادرانِ اسلام , بزرگو اور بھایئو! آج اللہ تعالى  ہم سے ناراض ہے ہم سے روٹھا ہوا ہے, اس کی رحمتیں ہم سے منہ موڑ رہی  ہیں , پورا علاقہ قحط سالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے, بدلیاں آ آ کر واپس چلی جاتی  ہیں , زمین کا پانی انتہائی گہرائیوں میں اتر چکا ہے, آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ کبھی ہم نے اس پر غور کیا؟ یہ سب ہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ  ہے؟ ہمارے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہو رہا ہے,  ہمیں اپنے رب کو منانے کی ضرورت ہے,  کثرت سے استغفار کرنے کی ضرورت ہے, اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر تم اس سے استغفار کروگے تو وہ تمہارے گناہوں کو معاف فرما دےگا, اور آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا, اللہ تعالى کا ارشاد ہے:  ﴿فَقُلۡتُ ٱسۡتَغۡفِرُواْ رَبَّكُمۡ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارٗا١٠ يُرۡسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيۡكُم مِّدۡرَارٗا١١ وَيُمۡدِدۡكُم بِأَمۡوَٰلٖ وَبَنِينَ وَيَجۡعَل لَّكُمۡ جَنَّٰتٖ وَيَجۡعَل لَّكُمۡ أَنۡهَٰرٗا١٢ [نوح: 10-12]

«اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے(10) وہ تم پر آسمان سے لگاتار بارش  برسائے گا(11) اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا(12)»

لہذا آئیے اپنے رب  سے استغفار  کرتے ہیں , گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں , اس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں

 

اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد النبي الأمي البشير النذير، والسراج المنير. اللهم صل وسلم عليه عدد ما صلي عليه من أول الدنيا إلى آخرها، اللهم وارض عن أصحابه الخلفاء؛ أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وعن الستة الباقين من العشرة، وعن الذين بايعوا نبيك تحت الشجرة، وعن عمي نبيك؛ حمزة والعباس وعن زوجاته أمهات المؤمنين، وعن بقية الصحابة أجمعين.

اللهم ارض عن التابعين وتابعي التابعين، اللهم ارض عن من تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، اللهم ارض عنا معهم، اللهم ارض عنا معهم بمنك، وكرمك، وجودك، وإحسانك يا رب العالمين.

اللهم أعز الإسلام والمسلمين؛ اللهم أعز الإسلام والمسلمين، وأذل الشرك والمشركين، ودمر أعداءك أعداء الدين، وانصر عبادك الموحدين، اللهم انصر عبادك الموحدين، اللهم انصر الدين ومن نصر الدين، وأذل الكفرة والمشركين، اللهم انصر أنصار الدين، وقوي عزائمهم يا رب العالمين، اللهم انصر دينك وكتابك وعبادك الموحدين، اللهم أظهر الهدى ودين الحق الذي بعثت به نبيك محمدا -صلى الله عليه وسلم- على الدين كله يا رب العالمين.

اللهم آمنا في أوطاننا، واستعمل علينا خيارنا، اللهم أصلح أئمتنا وولاة أمورنا، واجعلهم هداة مهتدين؛ يقولون بالحق وبه يعدلون، اللهم أصلح من في صلاحه خير للإسلام والمسلمين، ودمر من في بقائه ضرر على الإسلام والمسلمين يا رب العالمين.

اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث، ولا تجعلنا من القانطين، اللهم اسقنا وأغثنا، اللهم اسق عبادك، وبلادك وبهائمك، وانشر رحمتك، وأحيي بلدك الميت، اللهم اسقنا وأغثنا، اللهم اسقنا غيثا مغيثا وحيا، وجدا طبقا غدقا مغدقا مونقا هنيئا مريئا مريعا ساحا عاما دائما بررا، نافعا غير ضار عاجلا غير رائث، تحيي به البلاد، وترحم به العباد، وتجعله بلاغا للحاضر والباد، اللهم أنزل في أرضنا زينتها، اللهم أنزل في أرضنا سكنها، اللهم أنزل من السماء ماء فأحي به بلدة ميتا، واسقه مما خلقت أنعاما وأناسي كثيرا.

اللهم اسق بهائمك، وانشر رحمتك على العباد يا رب العالمين، اللهم لا تحرمنا خير ما عندك بشر ما عندنا، اللهم لا تحرمنا خيرك، ولا تحرمنا فضلك بذنوبنا؛ ربنا ظلمنا أنفسنا وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين، ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار.

 



([1]) رواه الحاكم وقال: «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» وصححه الألباني في صَحِيح الْجَامِع: 1077 , وصَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:3355

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں