ٹائم اور کلنڈر

ذکر الہی، اطمینانِ قلب کا باعث



 ذِکرُ الٰہی، اطمینانِ قلب کا باعث

(طلبہ و طالبات کے لیے ایک مختصر تقریر)

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الكريم اما بعد 
 فاعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم
 بسم الله الرحمن الرحيم 
 ﴿ ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ ٱللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ ٱللَّهِ تَطْمَئِنُّ ٱلْقُلُوبُ ‍‌.

جناب صدر، حاضرین مجلس، آج کی اس انجمن میں میری تقریر کا عنوان ہے:
 ذکر الہی اطمینان قلب کا باعث  

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے ذکر کی نعمت عطا فرمائی، اور سلام ہو اُس نبیِ کریم ﷺ پر جنہوں نے ہمیں دل کی روشنی اور روح کی راحت کے راستے سکھائے۔

معزز سامعین!

زندگی کی بھیڑ میں، وقت کی دوڑ میں، اور دنیا کے ہنگاموں میں، جب انسان کا دل تھک جاتا ہے، آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں، اور روح میں بےچینی سی سما جاتی ہے، تب ایک ایسا نسخہ ہے جو دل کو سکون بخشتا ہے، روح کو تسکین دیتا ہے، اور انسان کو ایک عجیب سی قربت اور قرار عطا کرتا ہے۔ وہ نسخہ کوئی دوا نہیں، کوئی طبی علاج نہیں، بلکہ وہ ہے: ذِکرُ الٰہی۔

جی ہاں! دل کا سکون نہ دولت سے آتا ہے، نہ شہرت سے، نہ اعلیٰ منصب سے، بلکہ دل صرف اُس وقت مطمئن ہوتا ہے جب وہ اپنے خالق کو یاد کرتا ہے، اپنی کمزوری کو تسلیم کرتا ہے، اور ربِّ کائنات کی عظمت کے سامنے جھک جاتا ہے۔

قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو نہایت واضح اور پُر اثر انداز میں بیان فرمایا:
﴿ ٱلَّذِينَ آمَنُوا۟ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ ٱللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ ٱللَّهِ تَطْمَئِنُّ ٱلْقُلُوبُ ﴾(سورۃ الرعد: 28)
 ترجمہ:
"جو لوگ ایمان لائے، ان کے دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں۔ یاد رکھو! اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون نصیب ہوتا ہے۔"

یہ کوئی عام بات نہیں، یہ ایک آفاقی حقیقت ہے، جس پر ہر مومن کا دل گواہی دیتا ہے۔ جب زبان پر "سُبْحَانَ اللّٰهِ" آتا ہے، تو دل کہتا ہے: ہاں! میرا رب پاک ہے۔
جب "الحَمْدُ لِلّٰهِ" کہا جاتا ہے، تو دل جھک جاتا ہے: ہاں! ہر نعمت تیری عطا کردہ ہے۔
اور جب "اللّٰهُ أَكْبَرُ" کہا جاتا ہے، تو دل اقرار کرتا ہے: تُو ہی سب سے بڑا ہے!

سامعینِ محترم!
ذکرُ الٰہی نہ صرف ایک عبادت ہے، بلکہ یہ دل کی غذا، روح کی دوا اور ایمان کی روشنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حقیقت کو ایک نہایت حسین مثال میں بیان فرمایا:
«مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ، وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ، كَمَثَلِ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ» (رواہ البخاری ومسلم)
 ترجمہ:
"جو اللہ کو یاد کرتا ہے اور جو یاد نہیں کرتا، ان کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔"

ذکر کرنے والا دل زندہ ہوتا ہے۔ وہ دھڑکتا ہے رب کے لیے، وہ روتا ہے رب کے سامنے، وہ جھکتا ہے رب کی عظمت میں۔
اور جو ذکر سے غافل ہو، اُس کا دل بے جان ہو جاتا ہے، جیسے ایک بند کمرہ، جہاں نہ روشنی ہے، نہ تازگی۔

معزز ومحترم سامعین کرام!

آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ بےچینی، خوف، اضطراب اور روحانی خلا کا دور ہے۔ جدید زندگی کی چمک دمک دل کو وقتی خوشی تو دے سکتی ہے، مگر سچا سکون اُس وقت آتا ہے جب بندہ اپنے خالق کی بارگاہ میں جھک جائے۔

ذکر صرف تسبیح کے دانے گننے کا نام نہیں، یہ ایک کیفیت ہے۔
جب ایک ماں دل سے "یَا رَحْمٰن" کہتی ہے، جب ایک طالبعلم "رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا" کہتا ہے،
جب ایک بیمار "أَسْتَغْفِرُ اللهَ" کے ذریعہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا ہے—
تو وہ دراصل اپنے دل کو دوا دے رہا ہوتا ہے، اپنی روح کو طاقت دے رہا ہوتا ہے۔

آئیے! ہم بھی اپنے دلوں کو زندہ کریں، اپنے دنوں کو ذکر سے روشن کریں،
اور اپنی راتوں کو رب کے ذکر سے معطر کریں۔
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ 
یا اللہ! ہمیں اپنی یاد میں رونے والی آنکھیں، جھکنے والے دل، اور تیرے ذکر سے روشن زبان عطا فرما!
یا رب! ہمارے دلوں کو دنیا کے غموں سے پاک فرما دے، اور اپنے ذکر سے بھر دے۔
آمین یا رب العالمین۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔


---

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں