ٹائم اور کلنڈر

مسلمانوں کے خلاف نظریاتی وفکری جنگ

"
ابو عدنان علی محمد محمدی

بسم الله الرحمن  الرحيم

 

مسلمانوں کے خلاف نظریاتی وفکری  جنگ

نظریاتی اور فکری جنگ اپنے اثرات اور نتائج کے اعتبار سے عسکری واسلحہ ذاتی جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک و سنگین ہوتی ہے, چونکہ اس جنگ میں انسان کے عقیدہ وایمان, دین ومذہب, تہذیب وتمدن, ثقافات وعادات  پر خفیہ انداز میں اس طرح حملہ کیا جاتا ہےکہ سامنے والے کو اس کا ادراک وشعور تک بھی نہیں ہوتا چہ جائے کہ وہ اس کا دفاع کرسکے, اس کے بالمقابل عسکری واسلحہ ذاتی جنگ میں مد مقابل اپنے دشمن اور اس کے حیلوں و مکروفریب کوبآسانی سمجھ کر اس کے دفاع کا بندو بست کر لیتاہے,علاوہ ازیں  عسکری جنگ کا ٹارگیٹ صرف موجودہ نسل ہوتی ہے جبکہ نظریاتی جنگ میں  نہ صرف موجودہ نسل کو ہدف بنایا جاتا ہے بلکہ آئندہ نسل بھی اسکا ہدفِ نشانہ ہوتی ہے, اس لئے نظریاتی وفکری جنگ اپنے نتائج کے اعتبار سے  زیادہ سنگین وخطرناک ہوتی ہے۔
   یہ جنگ عصر حاضر کی کوئی نئی ایجاد وٹیکنک نہیں ہےبلکہ ابتدائے آفرینش سے ہی جب اللہ تبارک وتعالى نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما کر جنت کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا  توملعون شیطان  حسد کےمارے  آگ بگولہ ہو گیا, اور پھر اپنے نظریاتی مکر وفریب کے ان سارے ہتھکنڈوں  کا استعمال کیا جن کا بھی استعمال اس کے لئے ممکن ہو سکاجیسے ہمذات, ونفخات, ونفثات ,وچاپلوسی  وغیرہ,کی ساری حدوں کو پار کرکے, خیرخواہی و بھائی چارگی کا ظاہری روپ دھار کر, رب کی معصیت ونافرمانی کی اس طرح ملمع شازی کی کہ جس کی سزا  بنی آدم کو آج تک بھگتنی پڑ رہی ہے, اور اس وقت تک سانس نہ لیا جب تک کہ آدم وحوّہ –علیہما السلام-  کو جنت کی عظیم نعمتوں سے محروم نہ کروا دیا۔ نعوذ باللہ من ہمذہ ونفخہ ونفثہ۔
غرض یہ کہ حق وباطل کی یہ کشمکش اسی وقت سے چلی آرہی ہے اور آج تک چل رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہےگی, چنانچہ نبی کائنات علیہ الصلاۃ والسلام نے جب کوہ صفا سے کلمہء توحید "لا إلہ إلا اللہ" کی صداء بلند کرتے ہوئے فرمایا : "یا أیہا الناس قولوا: لا إلہ إلا اللہ, تفلحوا تملکوا العرب والعجم" : اے لوگو ! کلمہء لا إلہ إلا اللہ کہو, عرب وعجم کے مالک بن جاؤگے, ... تو دشمنانِ اسلام نے آپ کو کلمہء حقہ کی دعوت سے باز رکھنے کے لئے نہ صرف ظاہری ومادی وسائل کا استعمال کیا بلکہ اپنے نظریاتی وفکری ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی, کسی نے آپ کو "پاگل ومجنون" کہا تو کسی نے"کاہن وجادوگر" جیسی بدنام زمانہ  صفات سے متصف کرنے کی نا پاک کوششیں کیں, اتنا ہی نہیں بلکہ آپ کی دعوت سے لوگوں کو روکنے کے لئے اللہ کے پاک  کلام کو "أساطیر الأولین" سے تعبیر کیا , ... یہ تھے نظریاتی وفکری جنگ کے بعض وہ وسائل واسالیب جن کے ذریعہ أعداء اسلام نے آپ  r  سے مکی زندگی میں نبرد آزمائی کی, لیکن جب آپ  r  ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے , آپ نے یہاں اسلامی سلطنت کی باگ ڈور ڈالی, اور مسلمانوں کی قوت میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا تو یہاں موجود دشمنانِ اسلام نے ابلیس کی پیروی کرتے ہوئے نظریاتی وفکری جنگ کو نیا روپ دیا اور پھر اسلام میں داخل ہوکر اسلام کی بیخ کنی کرنی چاہی, لیکن چونکہ  حق ہمیشہ غالب ہو رکر رہتا ہے, باطل مغلوب ہوتا ہے۔ جیسا کہ  اللہ تعالى کا ارشاد ہے:          ﮝﮞ           (الإسراء: ٨١)۔
ترجمہ: اور اعلان کر دیجئے ! حق  آ چکا , اور باطل نابود ہو گیا, یقینا باطل تھا بھی نابود ہونے والا۔
                                      بقول شاعر:
نور حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون


جس کا حامی ہو خدا  اس کو مٹا سکتا ہے کون

بہر حال ابتدائے کائنات وابتدائے اسلام میں نظریاتی وفکری جنگ کی مختصر سی جھلک آپ نے ملاحظہ فرمائی, کہ کس طرح باطل نے حق کا پیچھا کیا,  اسے مٹانےکے لئے نظریاتی وفکری ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے میں کیسے کیسے روپ اپنائے, جس سے معلوم یہ ہوا کہ فکری جنگ اسی وقت سے چلی آرہی ہے جب سے یہ کائنات رچی بسی ہے, اور ہر دور میں حالات کے حساب سے اپنا روپ بدلتے رہتی ہے, لیکن دور حاضر میں "نظریاتی جنگ" کی جو اصطلاح رائج ہے  اس کی شروعات شاید اس وقت سے ہے جب  صلیبی جنگوں کے دوران شاہ ِفرانس لوئس نوہم نے  1249ء میں مسلم سلطنت مصر پر حملہ کیا, اور شکست کھا کر گرفتار ہوا, تو اس نے اپنی قید وبند کی زندگی  میں اس بات پر غور وفکر کیا کہ مسلمان اپنی مادی طاقت وقوت کی قلّت کے باوجود کیسے فتح یاب ہو جاتے ہیں, بعد ازیں وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کا عقیدہ وایمان ہےلہذا کیوں نہ ان کے عقیدے وایمان سے محاربہ کیا جائے, جس سے ان کے درمیان نہ صرف افتراق وانتشار پیدا ہوگا بلکہ ان کی دین وایمان سے لگن ومحبت بھی جاتی رہےگی, اور اس طرح ان کو مغلوب کرنا آسان ہو جائےگا, چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا, رہائی کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس لوٹا تو اس نے اپنے وزراء وبڑے بڑے علماء وپادریوں کو جمع کرکے اپنے نظرئیے کو ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: "اگر تم مسلمانوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو محض اسلحہ پر اکتفى نہ کرو, اس لئے کہ تم اسلحہ کی جنگ میں بہت بری شکست کھا چکے ہو, بلکہ ان کی طاقت کی اصل جڑ -ایمان وعقیدہ- سے محاربہ آرائی کرو"([1])۔  ان کی اس پلاننگ کے بعد فکری جنگ نے ایک تنظیمی شکل اختیار کر لی, اور خفیہ مشنریوں اور تنظیموں کو عالم اسلام پر یلغار کرنے کے لئے تیار کیا۔
عصر حاضر میں نظریاتی جنگ کے وسائل وأسالیب:
عصر حاضر میں اعداء اسلام (بالخصوص یہودی لابیاں, وعیسائی مشنریاں, اور ہندومت)  نظریاتی وفکری جنگ میں اپنے مقاصدِ سیّئہ کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لئے جن متعدد ومتنوّع  وسائل واسالیب کو استعمال کررہے ہیں ان کی مختصر سی توضیح ذیل کی سطور میں کی جا رہی ہے, تاکہ مسلمان ہمہ وقت ان کے مکر وفریب سے محفوظ رہیں, اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کر سکیں, ممکن ہے ان وسائل واسالیب کو درج ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکے :
1-     تعلیم (Education):
تعلیم کی اہمیت کسی پر مخفی نہیں, تعلیم ہی وہ عنصر ہے جس کے ذریعہ کسی بھی معاشرہ وسماج میں نہ صرف مکمل طور پر بیداری لائی جا سکتی ہے, بلکہ معاشرہ کا رخ بھی بدلا جا سکتا ہے, اس لئے اعداء اسلام نے مسلم سماج کو تباہ کرنے, خاص کر نسلِ نو کی ذہن شازی اور فکر کو تبدیل کرنے کیلئے تعلیم کو اہم وسیلہ بنایا ہے, اپنے اس منصوبے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے وہ نہ صرف تعلیمی مراکز قائم کرتے ہیں, بلکہ پہلے سے موجود مدارس واسکولوں میں ٹرینڈ ٹیچروں کی تعیین بھی کرتے ہیں, اتنا ہی نہیں بلکہ نصابِ تعلیم میں ایسے مواد ومضامین داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی خواہشات وپلاننگ کی تکمیل کرتے ہوں, تاکہ بآسانی معصوم بچوں کی ذہن شازی کی جا سکے, اور ان کے صاف شفاف ذہن ودماغ میں اسلام کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کئے جا سکیں, اور پھر آگے چل کر یہی بچےبڑے ہوکر  اسلام کے خلاف کھڑے ہو جائیں, اور اس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنےطاہر القادری (پادری) جیسے ایمان فروش, اورتسلیمہ نصرین, وسلمان رشدی جیسے دین فروش وضمیر فروش لوگوں کی موجود ہے جنہوں نے کرسچن اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے انہیں کے لئے کام شروع کر دیا اور مسلم سماج کو تباہی کے داہنے پر پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

2-   میڈیا  (Media):
میڈیا اور ذرائع ابلاغ ایسے وسائل واسالیب کے مجموعہ کا نام ہے جن کے ذریعہ ایک جگہ کے حالات واخبار دوسری جگہ بڑی تیزی کے ساتھ منتقل کئے جا سکیں جیسے ٹیلی ویژن, ریڈیو, انٹرنیٹ, , جرائد, روزنامہ, ہفت روزہ, ماہنامہ, سہ ماہی, ششماہی وسالنامہ میگزین وغیرہ۔ عصر حاضر کی سب سے بڑی جنگ میڈیا کی جنگ ہے, میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ اس نے پوری دنیا میں کہرام مچا رکھا ہے, وہ حق کو باطل اور باطل کو حق کرنے میں دیر نہیں لگاتا, جب چاہے جس کو بدنام کرے اور جب چاہے جس کو سرنام کرے, اس پر کسی کی لگام نہیں, ہر شہر, ہر ملک میں اسی کی بالا دستی ہے۔
اس لئے دشمنانِ اسلام نے نظریاتی وفکری جنگ میں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے میڈیا کے استعمال کو خاص  اہمیت دی ہے, آئے دن طرح طرح کے پروپیگنڈے دیکھنے میں آتے ہیں , کہیں اسلام کے صاف شفاف چہرے کو دہشت گردی سے جوڑ کر داغ دار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں مسلمانوں کو فکری طور پر زد وکوب کیا جاتا ہے جس کے لئے متعدد اسلوب وطور طریقے اپنائے جاتے ہیں, کبھی براہِ راست اسلامی تعلیمات پر حملہ کیا جاتا ہے تو کبھی بالواسطہ ابلیسانہ ومنافقانہ رویہ اپناتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرکے اسلامی تعلیمات میں کھود کرید کرنے کی کوشش کرتے ہیں, اس کے لئے انٹرنیٹ پر بے شمار ویب سائٹس  ہیں جو اسلام کے نام پر اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں, جن کا مقصد نہ صرف اسلام کی شبیہ کو بگاڑنا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات میں تشکیک پیدا کرکے حق کے متلاشیوں کو اسلام سے دور کرنا بھی ہے, علاوہ ازیں اسلام سے متعلق متضاد لٹریچر کی نشر واشاعت بھی ان کے مکر وفریب ہی کا ایک حصہ ہے, اور حق کو باطل, باطل کو حق کے ساتھ ملا کر پیش کرنا ان کی پرانی عادت ہے, جیسا کہ اللہ تبارک وتعالى نے ان کو پہلے ہی اس عادتِ سیئہ سے منع فرمایا تھا, ارشاد باری ہے :                    (البقرة: ٤٢)  ترجمہ: (اور حق کو  باطل کے  ساتھ  خَلط  مَلط  نہ کرو اور نہ ہی جان بوجھ کر حق کی پردہ  پوشی  کرو)۔
یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ پہ موجود لٹریچر پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا, جب تک کہ اس کے ناشرومصدر کی مکمل تحقیق نہ کرلی جائے, اس لئے انٹرنیٹ کے استعمال میں بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے, اور ایسی ویب سائٹوں سے مکمل پرہیز کرنا ضروری ہے جو نہ صرف اسلام کے نام اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنا چاہتی ہیں بلکہ فحاشی وبے حیائی کو عام کرنے میں ہمہ تن لگی ہوئی ہیں, بطور نموذج ذیل کی سطور میں بعض ایسی ویب سائٹوں کے لنک دئے جا رہے جو اسلامی ناموں سے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے میں لگی ہوئی ہیں تاکہ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی ان کے مکر وفریب سے بچ جائیں اور ان سے دھوکہ نہ  کھائیں, وہ چند ویب سائٹس یہ ہیں:
یہ چند ویب سائٹوں کے نام ہم نے بطور نمونہ پیش کئے ہیں تاکہ ان کے مکر وفریب سے آگہی ہو جائے ورنہ ان جیسی ہزاروں ویب سائٹیں ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرہی ہیں, جن کا ذکر کرنا یہاں محال وناممکن ہے اور خلاف مصلحت بھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کے مکر وفریب وسازشوں کو نا کام بنائے۔ آمین۔
 اب اس کے بعد ہم چند معتمد اسلامک ویب سائٹوں کی طرف اشارہ کریں گے تاکہ ضرورت کے وقت ان کی طرف رجوع کیا جا سکے اور مذکورہ ویب سائٹوں کے متبادل کے طور پر انہیں استعمال کیا جا سکے, ان ویب سائٹوں کے لنک یہ ہیں:
1-      http://www.islamhouse.com/   :-  یہ ایک اسلامک ویب سائٹ ہے جو بتیس ہزار سے زیادہ عناوین پر مشتمل ہے, بشمول اردو, عربی, ہندی, انگلش کے پچاس زبانوں کو شامل ہے۔
2-    www.KitaboSunnat.com : - یہ ویب سائٹ اردو زبان میں بہت سی دینی کتابوں پر مشتمل ہے, قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھی جانے والی کتابوں پہ مشتمل یہ ویب سائٹ قابل تحسین ہے۔
3-    http://alimdmohammadi.blogspot.com    :- یہ اردو بلاگ ہے جو اسلامی مضامین کے علاوہ بہت سی معتمد اسلامی ویب سائٹس کے عناوین ولنکس پر مشتمل ہے۔
4-    http://students.iu.edu.sa/FONHAIS/amohammadi/Pages/default.aspx :- یہ ویب سائٹ عربی زبان میں ہے جو بہت سے مقالات, وکتب, محاضرات, تلاوتِ قرآن کریم, واسلامی پروگراموں کو شامل ہے۔
یہ چند ویب سائٹس بطور نمونہ یہاں ذکر کی گئی ہیں, ان کے علاوہ بہت سی ویب سائٹس ہیں جو دین کی صحیح معنوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں, ان کی تحقیقِ صحت کے بعد ان سے استفادہ کرنا چاہئے, اور بیکار قسم کی ویب سائٹس میں ٹائم ضائع نہ کرتے ہوئے معتبر اداروں کی ویب سائٹوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔  ہندوستان میں دینی مراکز ومدارس کواس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے, مقامی وعلاقائی زبانوں میں صحیح اسلامی تعلیمات پر مشتمل ویب سائٹس کا قیام وقت کی بہت اہم ضرورت ہے تاکہ نسل نو کی توجہ شر سے خیر کی طرف مبذول کرائی جا سکے, مدارس کے لئے یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے چوں کہ انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنے کے لئے دینی لٹریچر ان کے پاس پہلے ہوتا ہے, محاضرات, تقاریر, دروس, مقالات, کتب, جرائد ومجلات, طلبہ کے تعلیمی کنونشن, ودیگر دعوتی پروگرام وغیرہ اسلامی فکراور ثقافت کو عام کرنے کے لئےاپلوڈ ونشر کئے جا سکتے ہیں۔
3-   رفاہی خدمات  (Charities & Welfare services):
فکری جنگجؤوں نے اقلیتی وغریب طبقات میں رفاہی خدمات پیش کرنے کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا اہم ذریعہ بنایا ہے, انسانیت کی مجبوری وغربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے عقیدہ وایمان کا سودا کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے, رفاہی خدمات کے پسِ پردہ ان کے بہت سے سر پسند اہداف چھپے ہوتے ہیں جن کی تکمیل ہی ان کا اصل مقصد ہوتا ہے, اس وسیلہ کی تنفیذ میں وہ  متعدد اسلوب وطریقہ اختیار کرتے ہیں, جیسے ہسپتال کا قیام, زلزلہ, وسلاب جیسی ناگہانی آفات کے وقت امدادی ریلف, بیوہ اور یتیم یچوں کی خصوصی امداد کرنا, وغیرہ.. ان سارے بھلے کاموں کے پیچے کچھ اور ہی چھپا ہوتا ہے, پریشانی وتنگی کے حالات میں اگر کوئی کسی کی مدد کر دے یا کسی پر کچھ احسان کر دے, تو انسان احسان مندی سے ضرور متأثر ہوتا ہے, یا کم از کم احسان کے بوجھ تلے کچھ باتوں کو تسلیم کر لیتا ہے, یہی اسلوب ہے فکری جنگجو تنظیموں کا, بالخصوص عیسائی مشنریوں نے تو اس سلسلے میں پورے عالم اسلام میں جال بچھا رکھا ہے۔ اللہ ان کے شر سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین۔
یہاں پہ ان کے چند اہم وسائل کا ہم نے ذکر کیا ہے ورنہ اِن کے علاوہ اور بہت سے وسائل وذرائع ہیں جن کے ذریعہ وہ سماج ومعاشرہ  میں بے حیائی وفحاشی کو عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں, آزادی کے نام پر عورت کو اس مقصد کے لئے خصوصی استعمل کیا جاتا ہے, در حقیقت وہ عورت کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنا چاہتے ہیں, تاکہ عورت عزت وعصمت کو سر بازار نیلام کرنا قدر آسان ہو جائے, یہی وجہ ہے کوئی بھی ٹی وی چینل اون کرتے ہیں یا انٹر نیٹ چلاتے ہیں تو سب سے پہلے عورت کی تصویر سامنے آتی  ہے, جس کے حسن کے ذریعہ وہ نہ صرف فحاشی کو عام کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی تجارت کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں, اللہ ہم سب کو ان  کے مکر وفریب سے بچائے۔ آمین۔
نظریاتی وفکری جنگ میں انہوں نے اپنی نشاطات کے جو جال پھیلا رکھے ہیں اس کے بارے میں یہ مقالہ سمندر کے ایک قطرے کی حیثیت رکھتا ہے, ان کی نشاطات واعمال کو لکھنے کے لئے بہت سے دفاتر درکار ہوں گے , یہ مقالہ اس کی ہلکی سی جھلک ہے, تاکہ عام لوگ ان کے مکر وفریب سے بچ سکیں, اور اپنے دین وایمان کی صحیح طور پر حفاظت کر سکیں۔
آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے اللہ ہم سب مسلمانوں کو ان کے مکر وفریب سے بچائے ۔ آمین۔


([1]) دیکھئے کتاب: أوربا العصور الوسطى, التاریخ السیاسی, (عہد وسطى میں یورپ کی سیاسی تاریخ) ڈاکٹر سعید عبد الفتاح عاشور: (1/260-265), واقعنا المعاصر (ہماری موجودہ حالت), محمد قطب: (ص: 196)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں