ٹائم اور کلنڈر

بہتان تراشی اسلام کی نظر میں



الحمد لله رب العالمين، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له.
وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، أما بعد:

معزز سامعینِ کرام / سامعات!

زبان اللہ کی عظیم نعمت ہے، مگر یہی زبان اگر بے لگام ہو جائے تو دلوں کو توڑتی ہے، خاندانوں کو اجاڑتی ہے، اور معاشروں کو تاریکیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
آج ہم اسی زبان کی ایک بھیانک آفت پر گفتگو کریں گے—ایک ایسا زہر جو ایمان کا نور بجھا دیتا ہے: "بہتان تراشی"۔

یہ محض ایک لفظ نہیں، یہ کسی پاک دامن کی عزت پر ناحق وار ہے، یہ کسی بے گناہ کے دامن پر کیچڑ اچھالنے کا نام ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ وہ گھاٹا ہے جس میں قدم رکھنے والا دنیا و آخرت دونوں میں خسارے میں پڑ جاتا ہے۔
محترم سامعین و سامعات! آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں حرمتِ آبرو کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں 

سب سے پہلے ہم قرآن کی طرف رُخ کرتے ہیں، جو روشنی کا وہ چراغ ہے جو ہر باطل کو بے نقاب کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾ (الإسراء، 17:36)
ترجمہ: “جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ لگو۔”

یہ آیت گویا اعلانِ ربانی ہے کہ بغیر علم کے الزام لگانا، سنی سنائی بات کو دہرا دینا، اور گمان کو حقیقت بنا دینا—سب حرام ہیں۔

پھر اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو روحانی صفائی کا ایک سنہرا اصول دیا:

ارشاد ربانی ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
(الحجرات، 49:12)
ترجمہ: “اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔”

یہ آیت دلوں کے جنگل میں اگنے والے اُن زہریلے کانٹوں کو کاٹتی ہے جو بلا تحقیق بہتان کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

اور سب سے خوفناک وعید اس آیت میں ہے:
﴿إِنَّ ٱلَّذِینَ یَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَـٰتِ ٱلۡغَـٰفِلَـٰتِ ٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ لُعِنُوا۟ فِی ٱلدُّنۡیَا وَٱلۡـَٔاخِرَةِ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِیمࣱ﴾ [النور ٢٣]

ترجمہ: “جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کے مستحق ہیں، اور ان کے لیے عظیم عذاب ہے۔”

یہ آیت انسانی عزت کو آسمانی حرمت عطا کرتی ہے۔
جو اس حرمت کو توڑے، اور انسانی عزت کا احترام نہ کرے اس کے مقدّر میں اللہ کی لعنت لکھ دی گئی ہے—دنیا میں بھی، آخرت میں بھی۔


---

آئیے سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں اس معاشرتی جرم کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں 

نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کی آبرو کو اتنی ہی محترم قرار دیا ہے جتنی ان کی جان و مال کو۔
ارشاد فرمایا
﴿كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ: دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ﴾
(رواه مسلم، 2564)
ترجمہ: “ہر مسلمان کی جان، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔”

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ بغیر تحقیق کے الزام لگانا، غیبت، بہتان، یا افواہ پھیلانا، سب حرام ہیں

یہ حدیث اعلان کرتی ہے کہ کسی مسلمان کی عزت کو مجروح کرنا، اس پر تہمت دھرنا، یا اس کے کردار پر انگلی اٹھانا—گویا اس کے خون پر وار کرنا ہے۔

ایک موقع پر نبی ﷺ نے غیبت اور بہتان کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے صحابہ کرام سے دریافت کیا:
﴿أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟﴾
انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:

﴿ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ﴾
ترجمہ: "غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا وہ ذکر کرو جو اسے ناگوار ہو۔"
صحابہ نے پوچھا: اگر وہ بات اس میں ہو تو؟
آپ ﷺ نے فرمایا:

﴿إِنْ كَانَ فِيهِ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ﴾
“اگر وہ بات اس میں ہے تو یہ غیبت ہے، اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان باندھا ہے!”
(رواه مسلم، 2589)

یعنی غیبت بھی گناہ، اور بہتان اس سے بھی زیادہ سخت گناہ۔

گویا غیبت ایک زخم ہے، جبکہ بہتان ایک تلوار—جو براہِ راست دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔

معزز حضرات!

آئیے بہتان کے تباہ کن اثرات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
بہتان صرف ایک جھوٹا لفظ نہیں، یہ:

گھروں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے،

بھائی بھائی کو دشمن بنا دیتا ہے،

مسجدوں میں پھوٹ ڈالتا ہے،

عزتوں کی چادریں تار تار کر دیتا ہے،

اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب بنتا ہے۔


یہ گناہ دلوں میں وہ آگ لگاتا ہے جس کی لپٹیں سالوں تک بجھتی نہیں۔

محترم سامعین و سامعات ائیے قران و حدیث کی روشنی میں اس معاشرتی جرم کا علاج جاننے کی کوشش کرتے ہیں 

اسلام ہمیں احتیاط، تَثَبُّت اور خاموشی کا سبق دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا﴾
(الحجرات، 49:6)
ترجمہ: “اگر کوئی فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لو۔”


تحقیق کے بغیر پھیلائی گئی ہر بات یا تو غیبت ہوتی ہے یا بہتان۔

اے اہلِ اسلام!

آئیے ہم سب اپنی زبانوں کو تہمت کے گناہ سے پاک رکھیں،
اپنے دلوں کو بدگمانی سے صاف رکھیں،
اور اپنے گھروں کو اعتماد اور محبت کی خوشبو عطا کریں۔

آخر میں رسول اللہ ﷺ کی بابرکت دعا پر گفتگو ختم کرتا ہوں:

﴿اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي﴾

(رواه أبو داود)

اے اللہ! ہمیں ہر سمت سے اپنی حفاظت میں رکھ،
ہماری زبانوں کو پاکیزگی عطا فرما،
اور ہمارے دلوں کو نورِ ایمان سے معمور کر دے۔

آمین یا رب العالمین۔
والسلام علیکم ورحمة الله وبركاته۔

ثقافتی پروگرام اہمیت وافادیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ثقافتی پروگرام اہمیت وافادیت
چھ دسمبر 2025 کو ثقافتی ہفتے کے افتتاحی پروگرام میں کلیۃ اللغۃ العربیہ والدراسات الاسلامیہ جامعہ محمدیہ میں یہ مقالہ پیش کیا گیا ۔ 
الحمد للہ رب العالمین، والصلاه والسلام على سيد الانبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى اله وصحبه أجمعين أما بعد 

تمام تعریف اس ذات اقدس کے لیے جس نے انسان کو عدم کے گوشۂ گمنامی سے نکال کر علم و شعور کا تاج پہنایا، جس نے اسے فہم، ادراک اور کمالاتِ فکر سے نوازا، اور پھر اسے کائنات کی مسندِ خلافت پر سرفراز کیا۔
صلوٰۃ و سلام ہو اس ہادیِ اعظم، شفیعِ روزِ محشر، معلمِ خیر، سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر، جن کے نور سے دلوں کے بند قفل کھلتے ہیں، اور جن کی سنت سے زندگی کے راستے روشن ہوتے ہیں۔
اور درود و سلام ہو آپ کی آلِ اطہار پر، آپ کے رفقاءِ راہ صحابہ کرام پر، اور قیامت تک آپ کی محبت اور اطاعت کی خوشبو سے مہکتے رہنے والے اہلِ ایمان پر۔
أما بعد!
فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال اللہ تعالى: ﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ۝ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ۝ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ»
معزز اساتذہ کرام! محترم حاضرین! اور میرے عزیز طالب علمو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج ہم ایک ایسے ہفتے کا آغاز کر رہے ہیں جسے ثقافتی ہفتہ کہا جاتا ہے—مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ چند دن محض پروگراموں یا سرگرمیوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ذہنوں کی آبیاری، قابلیتوں کے اظہار، صلاحیتوں کے ارتقاء، اور طلبہ کی ہمہ جہت تربیت کا ایک حسین موقع ہے۔
یہ ہفتہ، جامعہ کی تعلیمی زندگی میں ایک نیا جوش، ایک نئی تازگی اور ایک فکری و عملی بیداری لے کر آتا ہے۔
یہ وہ موسم ہے جب چھپی ہوئی صلاحیتیں کھلتی ہیں، دبے ہوئے ہنر ابھرتے ہیں، اور ہر طالب علم کو اپنے اندر کے گوہرِ نایاب کو دنیا کے سامنے لانے کا موقع ملتا ہے۔
 ثقافت کی تعریف و مفہوم 
معزز سامعینِ کرام!
ثقافت… یہ محض ایک لفظ نہیں، یہ دراصل کسی قوم کی روح، اس کی شناخت، اس کا مزاج اور اس کا فکری نقشہ ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی، اس کے خیالات، اس کے اقدار، اس کے رہن سہن اور اس کے تہذیبی رویّوں کا مجموعہ—اسی کا نام ثقافت ہے۔
لغت میں "ثقافت" کا مفہوم سنوارنے، نکھارنے اور سیدھا کرنے سے ہے، اور یہی معنی انسان کی شخصیت پر بھی صادق آتے ہیں۔
جب ایک قوم اپنی زندگی کو سنوارتی ہے، اپنے اخلاق کو نکھارتی ہے، اور اپنے رویّوں کو اعتدال پر لاتی ہے، تو ایک متوازن اور مہذب ثقافت تشکیل پاتی ہے۔
اہلِ علم نے اس کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
“ثقافت اُن تمام مادی و معنوی پہلوؤں کا مجموعہ ہے جو کسی معاشرے کی فکری، تاریخی، اخلاقی اور عملی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔”
یعنی ثقافت صرف لباس یا زبان کا نام نہیں،
یہ صرف کھیل کود، اور تقریبات تک محدود نہیں،
بلکہ یہ اس سے کہیں وسیع حقیقت ہے۔
یہ فکر بھی ہے، اعتقاد بھی،
یہ تاریخ بھی ہے، اقدار بھی،
یہ زبان بھی ہے، کردار بھی،
یہ علم بھی ہے، فن بھی،
یہ طرزِ احساس بھی ہے، طرزِ اظہار بھی۔
ثقافت وہ آئینہ ہے جس میں ایک قوم اپنی پہچان کو دیکھتی بھی ہے اور دکھاتی بھی ہے۔
اسلامی ثقافت کیا ہے؟
اسلامی ثقافت ایک پاکیزہ سرچشمہ ہے—
وہ سرچشمہ جو قرآن کی روشنی، سنت کی خوشبو، صحابہ کی تربیت، تابعین کی حکمت اور امت کی علمی میراث سے سیراب ہوا ہے۔
اسلامی ثقافت کی بنیاد تین ستونوں پر قائم ہے:
1. عقیدہ کی پاکیزگی
2. عبادت و اخلاق کی بلندی
3. معاملات و معاشرت کی خوبصورتی
قرآن نے اسی لیے فرمایا:
﴿صِبْغَةَ اللهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً﴾
یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرو، اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہو سکتا ہے؟
اسلامی ثقافت وہ رنگ ہے جو انسان کے ظاہر و باطن کو یکساں خوبصورت کر دیتا ہے۔
یہ ثقافت ہمیں سکھاتی ہے کہ:
— علم عبادت ہے،
— اخلاق زینت ہے،
— عدل بنیاد ہے،
— حیا سرمایہ ہے،
— اتحاد قوت ہے،
— اور خدمتِ خلق انسانیت کی معراج ہے۔
جب کسی ادارے یا معاشرے میں یہ اقدار زندہ ہوں، تو وہاں کی ثقافت نہ صرف مہذب ہوتی ہے بلکہ دنیا کے لیے نمونہ بھی بن جاتی ہے۔

ثقافت کی اہمیت و ضرورت
کسی قوم کی ثقافت اس کی اجتماعی زندگی کی وہ بنیاد ہوتی ہے جس پر اس کے فکری ڈھانچے، اخلاقی قدریں، تہذیبی رویّے اور معاشرتی شناخت قائم ہوتی ہے۔ جس طرح درخت اپنی جڑوں سے حیات پاتا ہے، اسی طرح قومیں اپنی ثقافت سے قوت حاصل کرتی ہیں۔ ثقافت صرف رسومات یا چند تہواروں کا نام نہیں، بلکہ ایک زندہ تمدنی شعور ہے جو قوم کے ماضی کو اس کے حال اور حال کو اس کے مستقبل سے جوڑتا ہے۔
ثقافت کی اہمیت اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم نے اپنی بنیادی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کے زینے طے کیے ہیں۔ جو قوم اپنی تہذیب سے کٹ جائے، اس کا فکری وجود کمزور ہو جاتا ہے، اس کی ترجیحات بکھر جاتی ہیں، اور اس کی اجتماعی شخصیت دوسروں کی تقلید میں گم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ثقافت کا تحفظ دراصل قوم کی روح کی حفاظت ہے۔
اولاً: ثقافت فرد کی شخصیت بناتی ہے۔
یہی ثقافت بچے کے لب و لہجے میں مٹھاس پیدا کرتی ہے، نوجوان کو اخلاق کی مہک دیتی ہے، اور بزرگوں کو وقار عطا کرتی ہے۔ جو قوم اپنی ثقافتی اقدار کو نسلوں تک منتقل کرتی رہتی ہے، اس کی نئی نسلیں مضبوط بنیادوں کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔
ثانیاً: ثقافت معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔
یہ قوم کے افراد میں مشترکہ احساسات، یکساں جذبات اور باہمی احترام کو جنم دیتی ہے۔ جس معاشرے کی ثقافت واضح اور مضبوط ہو، وہاں انتشار کے امکانات کم اور اتحاد کی لہریں نمایاں ہوتی ہیں۔
ثالثاً: ثقافت علمی و اخلاقی معیار کو بلند کرتی ہے۔
اسلامی ثقافت انسان کو پاکیزگی، صداقت، شرافت، عدل، احسان، اور خیر خواہی جیسے اوصاف سے نوازتی ہے۔ ایسا معاشرہ امن اور انصاف کا گہوارہ بنتا ہے۔ یہی وہ مقاصد ہیں جو قرآن نے انسانیت کے سامنے پیش کیے اور جن کی عملی تصویر سیرتِ نبوی میں نظر آتی ہے۔
رابعاً: ثقافت قوم کی شناخت کا حصار ہے۔
دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں، غیر اسلامی اقدار اور گلوبل اثرات کے ہجوم میں، اسلامی ثقافت ہماری نسلوں کو اپنی اصل سے وابستہ رکھتی ہے۔ یہ وابستگی محض ایک احساس نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تہذیبی اقدار کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ انھیں مزید نکھار کر پیش کریں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ثقافت کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ اسلام ایک کامل دین ہے، جو عقائد سے لے کر آدابِ زندگی تک، عبادات سے لے کر معاشرت تک مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کی روشنی میں تشکیل پانے والی ثقافت انسان کو دنیا میں وقار اور آخرت میں کامیابی عطا کرتی ہے۔
بلآخر، ثقافت قوم کی زندگی کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اگر قومیں اپنے علمی مراکز، مساجد، مدارس، ادبی نشستوں، علمی مذاکروں، اور تہذیبی سرگرمیوں کو زندہ رکھیں، تو دراصل وہ اپنی روحانی شناخت کو زندہ رکھتی ہیں۔ یہی شناخت انہیں ترقی، اتحاد اور استقامت کی راہ دکھاتی ہے۔
 کیمپس میں ثقافتی سرگرمیوں کی اہمیت
ہمارا یہ ہفتۂ ثقافت اسی لیے منایا جاتا ہے کہ طلبہ اپنی جسمانی، ذہنی، علمی، اخلاقی اور فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں۔
یہ سرگرمیاں انہیں نہ صرف اعتماد دیتی ہیں بلکہ مستقبل کے میدانِ عمل میں رہنمائی، قائدانہ کردار اور اعلیٰ انسانی اقدار کے ساتھ قدم رکھنے کا حوصلہ بھی فراہم کرتی ہیں۔



مسابقہ حسنِ تلاوت

ہمارے اس ثقافتی و تربیتی پروگرام کا ایک نہایت عظیم اور مبارک گوشہ مسابقۂ حسنِ تلاوت ہوتا ہے۔
اس مرحلے میں نورِ قرآن کے جلوے دلوں کو روشن کرتے ہیں، اور ہر قاری کی زبان سے بہنے والی آیات سماعتوں میں وہ ساعتیں اُتارتی ہیں جن میں خشوع بھی ہوتا ہے، خضوع بھی، اور دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی تاثیر بھی۔

طلبہ جب مائک کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو اُن کے لہجوں میں معصومیت بھی جھلکتی ہے اور قرآن کے ساتھ محبت کی وہ حرارت بھی محسوس ہوتی ہے جو سننے والوں کے دلوں تک براہِ راست منتقل ہو جاتی ہے۔
کوئی اپنی ترتیل کی مٹھاس سے سماعتوں کو سرشار کرتا ہے، کوئی تجوید کی پابندی کے ساتھ حروفِ قرآنی کی شان دکھاتا ہے، اور کوئی اپنے صوتی حسن سے ایسا وجد خیز ماحول پیدا کرتا ہے کہ محفل کی ہر سانس گویا "ورتل القرآن ترتیلا" کی عملی تفسیر بن جاتی ہے۔

یہ مقابلہ صرف آواز کی لطافت کا نہیں ہوتا، بلکہ ایمان کی حرارت کا بھی امتحان ہوتا ہے—
یہ دیکھنے کا کہ کون قرآن سے کتنا جڑا ہے، کون اس کی آیات میں ڈوبا ہوا ہے، اور کون اپنی تلاوت میں قرآن کے تقدس اور عظمت کو زندہ رکھتا ہے۔

اساتذۂ کرام نہایت عادلانہ انداز میں طلبہ کی قراءت کا جائزہ لیتے ہیں—
تجوید، مخارج، اوزانِ صوت، وقف و ابتدا، اور ادائیگی کے حسن کو سامنے رکھتے ہوئے۔
یوں یہ مقابلہ ہمارے طلبہ کے ذوقِ قرآنی، ان کی محنت اور ان کے دینی مزاج کا روشن ترین ثبوت بن کر سامنے آتا ہے۔

مسابقۂ حسنِ تلاوت یہ حقیقت بھی اجاگر کرتا ہے کہ جس دل میں قرآن بس جائے وہ دل کبھی ویران نہیں رہتا،
اور جس زبان سے قرآن جاری ہو جائے وہ زبان کبھی بے برکت نہیں ہوتی۔


برجستہ خطابت
خطابت انسان کے اندر چھپی ہوئی قوتِ اظہار کا حسین ظہور ہے۔ یہ وہ فن ہے جو الفاظ کو جان بخشتا ہے، لہجے میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور سامعین کے دلوں پر اثر چھوڑ جاتا ہے۔ برجستہ خطابت محض زبان کی روانی نہیں، بلکہ فکر کی پختگی، جذبے کی حرارت اور شخصیت کی وقار آفرینی کا نام ہے۔
جب نوجوان مقرر بغیر کسی تحریر کے اعتماد کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور چند لمحوں میں اپنے خیالات کو ترتیب دے کر سامعین کے سامنے پیش کر دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فکر بیدار ہے، اس کا مطالعہ وسیع ہے اور اس کے اندر اظہار کی قوت موجزن ہے۔
یہ مرحلہ طلبہ کی تربیت کا نہایت اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہاں ان کے لہجے کا اتار چڑھاؤ، الفاظ کا انتخاب، جملوں کی ترتیب اور اندازِ بیان کی شائستگی سب کچھ جانچا جاتا ہے۔
برجستہ خطابت نوجوانوں میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ان کے ذہنوں میں وسعت لاتی ہے، اور انہیں مستقبل میں علمی و دعوتی میدانوں میں مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
ایک خوبصورت تقریر دل کو روشن کرتی ہے، فکر کو جلا دیتی ہے، اور سامعین کو حقیقت شناس بناتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خطیب صرف بولتا نہیں، دلوں کو جگاتا ہے۔

 انشائی صحافت – تعارف
انشائی صحافت وہ لطیف اور دلنشیں اسلوب ہے جس میں خبر اور ادب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلتے ہیں۔ یہ صحافت کا وہ رخ ہے جہاں خشک معلومات کو ادبی حسن دیا جاتا ہے اور الفاظ میں ایسا رنگ بھرا جاتا ہے کہ قاری نہ صرف جانکاری حاصل کرتا ہے بلکہ ایک فکری اور جمالیاتی لطف بھی محسوس کرتا ہے۔
اس میں زبان کی شستگی، جملوں کی تہذیب، اور اندازِ بیان کی دلکشی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انشائی صحافت حقائق کو چھپاتی نہیں، بلکہ انہیں خوبصورت پیرایے میں پیش کرتی ہے، تاکہ خبر قلبِ قاری کو بھی چھو جائے اور ذہن کو بھی روشن کرے۔

 انشائی صحافت کی اہمیت
انشائی صحافت کی اہمیت اس لیے مسلم ہے کہ یہ معلومات کو محض خشک اعداد و شمار کی صورت میں نہیں دیتی، بلکہ انہیں انسانی احساسات اور ادبی رنگ کے ساتھ معاشرے کے سامنے رکھتی ہے۔
یہ صحافت قاری کے ذہن میں فہم کی نئی کھڑکیاں کھولتی ہے، معاشرتی شعور کو نکھارتی ہے، اور زبان و بیان کی جمالیات کا معیار بلند کرتی ہے۔
انشائی صحافت کا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان نسل کو ادب سے جوڑتی ہے، انہیں زبان کی لطافت کا ذوق عطا کرتی ہے، اور انہیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقت بیان کرنا ہو تو اسے خوبصورت اور دل نشیں انداز میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ انشائی صحافت خبر کو دل تک پہنچانے کا فن ہے—
جہاں صداقت بھی موجود ہوتی ہے، بصیرت بھی، اور حسنِ بیان بھی۔

منطقی و انگریزی سوالات
علمی محفلوں میں منطقی اور انگریزی سوالات کا مرحلہ ذہانت کی روشنی اور فکری بیداری کا ایک خوبصورت مظہر ہوتا ہے۔ یہ صرف امتحان نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں طلبہ کی فکری گہرائی، زبان پر گرفت، حاضر دماغی اور ذہنی چستی سب کچھ نظر آ جاتا ہے۔
منطقی سوالات ذہن کو ترتیب دیتے ہیں، سوچ میں ربط پیدا کرتے ہیں اور انسان کو استدلال و تجزیہ کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ ایسے سوالات طلبہ کو سوچنے، پرکھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ یہ ذہنی تربیت کا وہ درجہ ہے جو انسان کی عقل کو تازگی دیتا ہے اور اس کے فکر کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
دوسری طرف انگریزی سوالات طلبہ کی زبان دانی، تلفظ، فہم اور بین الاقوامی علمی ماحول میں گفتگو کی استعداد کو جلا بخشتے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے، وہاں کسی بھی طالب علم کا دوسری زبان پر عبور حاصل کرنا محض ایک خوبی نہیں بلکہ ایک ضرورت بن چکا ہے۔
یہ سوالات طلبہ کے لیے اعتماد اور مہارت کا ذریعہ بنتے ہیں، اور انہیں عالمی سطح پر گفتگو، تقریر اور تحریری صلاحیت کے لیے تیار کرتے ہیں۔
یوں منطقی فکر اور لسانی مہارت دونوں مل کر ایک ہمہ جہت شخصیت گھڑتے ہیں—جو سوچ بھی سکتی ہے، بول بھی سکتی ہے، سمجھ بھی سکتی ہے اور دوسروں تک اپنا مدعا پوری وضاحت سے پہنچا بھی سکتی ہے۔ یہی وہ امتزاج ہے جس سے ایک باوقار، باہمت اور متوازن علمی نسل وجود میں آتی ہے۔
 مشاعرہ اور بیت بازی
ادب کی دنیا میں مشاعرہ وہ روشن چراغ ہے جس کے گرد زبان کی لطافت، شعر کی موسیقیت، اور احساس کی لطیف موجیں رقص کرتی ہیں۔ یہ محفل محض اشعار سنانے کا نام نہیں، بلکہ جذبات کی آبیاری، خیال کی پرورش اور فنِ شاعری کی تربیت کا حسین مرکز ہے۔ مشاعرہ وہ میدان ہے جہاں نوجوان الفاظ کے ساتھ گفتگو کرنا سیکھتے ہیں، جذبات کو تہذیب دیتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک خوشگوار انداز میں پیش کرتے ہیں۔
جس محفل میں شعر کی خوشبو بکھر جائے، وہاں دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے، ذہن روشن ہوتے ہیں اور معاشرتی ذوقِ لطافت پروان چڑھتا ہے۔
مشاعرہ نئی نسل کے لیے ایک جمالیاتی تربیت گاہ بھی ہے، جہاں زبان کی نزاکت، بیان کی شستگی اور فکر کی پرواز سب کچھ ایک ہی نشست میں سکھایا جاتا ہے۔ یہ محفلیں قوم کے تہذیبی وقار کو زندہ رکھتی ہیں اور یہ باور کرواتی ہیں کہ جس قوم کی زبان زندہ ہو، اس کا شعور بھی زندہ ہوتا ہے۔
دوسری جانب بیت بازی ادبی ذوق کو مزید حرارت بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ کھیل نہیں، زبان سے وابستگی کا اعلان ہے۔ بیت بازی ذہانت، حاضر دماغی اور شعری حافظے کا حسین امتزاج ہے۔ جیسے ہی ایک بیت پڑھا جاتا ہے، حریف ٹیم لمحوں میں اگلے مصرع کی تلاش میں ذہنی محنت کرتی ہے، یوں ایک دلچسپ اور فکری چستی سے بھرپور سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔
بیت بازی نوجوانوں میں یادداشت کو تیز کرتی ہے، زبان پر قدرت بڑھاتی ہے، اور انہیں کلاسیکی و جدید شعری سرمایہ سے قریب کر دیتی ہے۔ اس میں مقابلہ بھی ہوتا ہے اور سیکھنے کا لطیف لطف بھی؛ چیلنج بھی ہوتا ہے اور فن کا جمال بھی۔
یوں مشاعرہ دلوں کی بستی کو آباد کرتا ہے اور بیت بازی ذہن کی کلیوں کو کھلاتی ہے۔ ایک احساس کو نکھارتا ہے، دوسرا فکر کو؛ ایک زبان کے حسن کو اجاگر کرتا ہے اور دوسرا یادداشت و فہم کو مضبوط کرتا ہے۔ دونوں مل کر ثقافت و تہذیب کے سفر میں ایک حسین سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 
کھیل کود

کھیل کود انسانی زندگی کا وہ روشن پہلو ہے جو جسم کو توانائی، ذہن کو تازگی اور دل کو خوشی عطا کرتا ہے۔ یہ انسان کی فطری ضرورت بھی ہے اور اس کی تہذیبی وراثت کا حصہ بھی۔ کھیل محض مشغلہ نہیں، بلکہ تربیت کا ایک مکمل نظام ہے جو نظم و ضبط، باہمی تعاون، برداشت اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف کو پروان چڑھاتا ہے۔

مدرسے اور تعلیمی اداروں میں کھیل کود کا اہتمام اس لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ یہ طلبہ کو یکسوئی کے بوجھ سے نکال کر ذہنی تازگی عطا کرتا ہے۔ جب جسم حرکت میں ہوتا ہے تو ذہن میں نئی روشنی جنم لیتی ہے، فکر میں تازہ ہوا چلتی ہے اور انسان کی اندرونی صلاحیتیں ایک نئی توانائی کے ساتھ بیدار ہوتی ہیں۔

کھیل انسان کو جیت اور ہار دونوں کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ جیت ملے تو شکر اور اعتماد، اور ہار ملے تو صبر اور ازسرِ نو کوشش کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی وہ تربیت ہے جو میدانِ حیات میں انسان کو ثابت قدمی عطا کرتی ہے۔
کھیل کود کا ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ طلبہ کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، ان میں اتحاد، بھائی چارے اور ٹیم ورک کی روح بیدار کرتا ہے۔ کھیل کا میدان دلوں کو جوڑنے، رنجشوں کو مٹانے اور محبتیں بڑھانے کی بہترین مثال ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ کھیل کود سماجی حسن اور اخلاقی تربیت کا ایک دلکش آئینہ ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی ہمیشہ اصول اور دیانت کے ساتھ کھیلتا ہے، مخالف کی عزت کرتا ہے، اور اپنی کارکردگی سے دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ اخلاقی جمال ہے جو طلبہ کی شخصیت میں وقار اور شائستگی پیدا کرتا ہے۔

یوں کھیل کود صرف جسمانی مشق نہیں، بلکہ شخصیت سازی، اخلاقی تربیت اور سماجی ہم آہنگی کا ایک جامع اور فطری ذریعہ ہے۔ جہاں کتاب کی روشنی ذہن کو روشن کرتی ہے، وہاں کھیل کی تازگی دل و دماغ میں زندگی کی نئی بہار پیدا کرتی ہے — اور دونوں مل کر ایک متوازن، بیدار، صحت مند اور باوقار شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔


ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو ہمیشہ علم و تربیت کا مرکز بنائے، اس کے طلبہ کو دین و دنیا کی بھلائیوں کا حامل بنائے، اور انہیں مستقبل میں امت کے درخشاں چراغ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کرے کہ یہ محفل ہمارے دلوں میں ہمیشہ یادگار رہے اور اس کی برکتیں ہماری عملی زندگیوں میں بھی نظر آئیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔