(طلبہ و طالبات کے لیے ایک مختصر وجامع اور مدلل تقریر)
نحمده ونصلي على رسوله الكريم أما بعد
فأعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
﴿ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ... ﴾
محترم جناب صدر و معزز سامعینِ کرام! اج کی اس پر رونق بس میں میری تقریر کا عنوان ہے:
پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک؛ اسلامی فریضہ اور انسانی تقاضہ
محترم سامعین کرام !
زندگی کا ایک حسین رشتہ، جسے اکثر ہم نظرانداز کر بیٹھتے ہیں، وہ ہے: پڑوسی کا رشتہ۔
وہ جو ہمارے در و دیوار سے جُڑا ہوتا ہے،
وہ جو ہمارے سُکھ دُکھ کا پہلا گواہ ہوتا ہے،
وہ جو ہمارے گھروں کی آہٹ اور ہمارے بچوں کی آوازوں سے آشنا ہوتا ہے—
وہ ہمارا پڑوسی ہے۔
اسلام، جو ایک کامل و مکمل دین ہے، نہ صرف بندے کو رب سے جوڑتا ہے، بلکہ اُسے انسانی رشتوں میں محبت، تعلق اور خیرخواہی کا درس بھی دیتا ہے۔
پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک، اسی خیرخواہی کا روشن باب ہے۔
ذرا غور کیجیے!
نہ وہ ہمارا بھائی ہے، نہ رشتہ دار، مگر اللہ تعالی نے اس کے ساتھ حسن سلوک کی اس قدر تلقین فرمائی کہ رسولِ رحمت ﷺ کہ قلب اطہر میں یہ خیال ایا کہ کہیں وہ وراثت کا حقدار نہ بن جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ» (صحیح بخاری و مسلم)
ترجمہ:
"حضرت جبرائیلؑ مسلسل مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید اُسے (پڑوسی کو) وارث بنا دیا جائے گا!"
اللہ اکبر!
یہی تو نبوی رحمت کا انداز ہے—ہر کمزور، بے نوا اور قریبی کو عزت دینا، محبت دینا۔
پیارے سامعین!
پڑوسی صرف ایک مکان کے ساتھ رہنے والا شخص نہیں، بلکہ وہ ایک امانت ہے جو ہمارے اخلاق کے ترازو میں تولی جاتی ہے۔
ہمارے رویے، ہمارے الفاظ، ہمارے اعمال—یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ ہم سچے مسلمان ہیں یا نہیں۔
قرآنِ کریم میں ارشاد ربانی ہے:
﴿ وَٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ... ﴾ (سورۃ النساء: 36)
ترجمہ:
"اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ نیکی کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسی اور غیر قریبی پڑوسی کے ساتھ بھی احسان کرو۔"
غور کیجیے!
جہاں اللہ نے عبادت، والدین اور یتیموں کا ذکر کیا، وہیں پڑوسی کو بھی شامل فرمایا۔ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک دعوتِ عمل ہے۔
آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیواریں بلند ہو گئی ہیں، مگر دل تنگ ہو گئے ہیں۔
ایک وقت تھا جب پڑوسی بیمار ہوتا تو دوسری طرف کھانے میں نمک کم ڈال دیا جاتا۔
آج حالات یہ ہیں کہ لوگ ایک ہی عمارت میں سالوں رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے کے نام تک نہیں جانتے۔
کیا یہی دینِ محمدی ﷺ ہے؟
کیا یہی وہ اُمت ہے جسے "خَیْرُ أُمَّةٍ" کہا گیا؟
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ» (صحیح بخاری)
ترجمہ:
"جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرے۔"
یعنی پڑوسی کی عزت کرنا، اُس کی خیرخواہی کرنا، اور اُسے تکلیف نہ دینا—یہ ایمان کی نشانی ہے!
ایمان صرف نمازوں اور روزوں کا نام نہیں،
ایمان یہ بھی ہے کہ ہم:
- اپنے پڑوس میں بھوکے کو کھانا کھلائیں،
- غمزدہ کے لیے تسلی کا سامان بن جائیں،
- اور اپنی آسائش میں سے اُس کے لیے **گنجائش** نکالیں۔
آئیے! ہم سب عہد کریں کہ:
- ہم اپنے پڑوسیوں کا حال احوال پوچھیں گے،
- اُن سے مسکرا کر ملیں گے،
- اُن کے دکھ سکھ میں شریک ہوں گے،
- اور اُن کے لیے دعاگو رہیں گے۔
کیونکہ جو قومیں اپنے پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھتیں، وہ معاشرتی زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اور جو قومیں پڑوسی کے دروازے پر خلوص کے تحفے پیش کرتی ہیں، وہ دلوں کی حکمران بن جاتی ہیں۔
یا اللہ! ہمیں ایسا حسنِ اخلاق عطا فرما کہ:
- ہمارے پڑوسی ہماری موجودگی کو رحمت سمجھیں،
- ہمارے گھروں سے محبت کی خوشبو پھیلے،
- اور ہم تیرے رسول ﷺ کی سنتِ مبارکہ کو زندہ کریں۔
آمین یا رب العالمین!
وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ