اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَمَرَ بِالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ، وَجَعَلَهُ سَبَبًا لِكِفَايَةِ الْعَبْدِ وَرِزْقِهِ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، الْمُتَوَكَّلِ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ الْأُمُوْرِ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، الْمُتَوَكِّلُ عَلَى رَبِّهِ فِي جَمِيعِ أَحْوَالِهِ، صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:
آج کا موضوع نہایت عظیم اور دلوں کو سکون دینے والا ہے، وہ ہے توکل علی اللہ یعنی اللہ پر بھروسہ کرنا، اپنے تمام معاملات کو اللہ کے سپرد کر دینا اور دل کو اسی ذات سے وابستہ رکھنا جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور کبھی فنا نہیں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
﴿وَعَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾ (سورۃ المائدہ: 23)
یعنی "اگر تم مومن ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔"
توکل مومن کی زندگی کا سہارا اور انبیاء و مرسلین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے دہکتے ہوئے شعلوں میں پھینکا تو جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: "کیا آپ کو کوئی حاجت ہے؟" تو انہوں نے فرمایا: "حَسْبِيَ اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ"
(صحيح البخاري، كتاب التفسير، حديث: 4563)
ترجمہ: "میرے لئے اللہ کافی ہے، اور وہ بہترین کارساز ہے۔
آگ کے شعلے ٹھنڈے اور سلامتی کا گہوارہ بن گئے۔
یہی کلمات صحابہ کرامؓ نے بھی احد کے بعد حمراء الاسد کے مقام پر کہے جب لوگوں نے ڈرایا کہ دشمن لشکر کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔ مگر وہ پکار اٹھے:
﴿حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ﴾ (آل عمران: 173)
پھر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اللہ کے فضل سے واپس آئے، نہ کوئی نقصان ہوا نہ کوئی آفت۔
محترم سامعین!
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بھی توکل کی زندہ مثال ہے۔ مدین کے کنویں پر جب بھوک اور کمزوری کی حالت میں انہوں نے اللہ کے سامنے عرض کیا:
﴿رَبِّ اِنِّيْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ﴾ (القصص: 24)
تو رب کریم نے ان کے لیے نہ صرف کھانے پینے کا انتظام فرمایا بلکہ شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی کے ساتھ بابرکت نکاح بھی نصیب فرمایا۔ اور جب فرعون کا لشکر ان کے پیچھے تھا اور آگے سمندر، تو بنی اسرائیل چیخ اٹھے: "ہم تو پکڑے گئے۔" موسیٰ علیہ السلام نے پورے یقین کے ساتھ فرمایا:
﴿كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ﴾ (الشعراء: 62)
نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر دو حصوں میں بٹ گیا اور اللہ کے حکم سے نجات ملی۔
ایمان والے دوستو!
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بھی توکل کا باب روشن ہے۔ ہجرت کی رات جب غارِ ثور میں مشرکین سر پر کھڑے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پریشان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا
(صحيح البخاري، حديث: 4663، وصحيح مسلم، حديث: 2381)
ترجمہ: "غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"
یہ ہے سچا توکل جو خوف کو سکون اور خطرے کو نجات میں بدل دیتا ہے۔
لیکن یاد رہے! توکل کا مطلب یہ نہیں کہ اسباب کو چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ
(رواه الترمذي، حديث: 2517، وحسنه الألباني)
ترجمہ: "اونٹنی کو باندھ لو، پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔"
یعنی کوشش اور تدبیر بھی ضروری ہے، پھر نتیجہ اللہ کے حوالے کر دینا ہی اصل توکل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللّٰهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ، تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بَطَانًا
(رواه أحمد: 205، والترمذي: 2344، وقال: حسن صحيح)
ترجمہ: "اگر تم اللہ پر سچا توکل کرو تو وہ تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ لوٹتے ہیں۔"
رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں بھی توکل کا درس موجود ہے۔
اور آپ ﷺ دعا میں فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ
(صحيح البخاري: 6319، وصحيح مسلم: 2710)
ترجمہ: "اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیرے سپرد کیا، اپنا معاملہ تیرے حوالے کیا، اور اپنا سہارا تجھ پر ڈالا، تیری رحمت کی امید اور تیرے عذاب کے خوف کے ساتھ۔ تجھ سے بچنے اور تجھ سے پناہ پانے کی کوئی جگہ نہیں مگر تیرے پاس۔"
اور یہ بھی دعا فرمایا کرتے تھے:
"اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ"
(رواه مسلم: 2717)
ترجمہ:
"اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر ہی بھروسہ کیا، تیری ہی طرف رجوع کیا، اور تیری ہی خاطر دشمنی کی۔ اے اللہ! میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس بات سے کہ تو مجھے گمراہ کر دے۔ تو ہی زندہ ہے جو کبھی نہیں مرے گا، اور جن و انس سب کے سب مرنے والے ہیں۔"
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ توکل نصف ایمان ہے، اور باقی نصف انابت ہے۔
امام ابن القيم رحمه الله (ت 751ھ) اپنی کتاب مدارج السالکین میں فرماتے ہیں:
اَلتَّوَكُّلُ نِصْفُ الدِّينِ، فَإِنَّ الدِّينَ اسْتِعَانَةٌ وَعِبَادَةٌ، فَالتَّوَكُّلُ هُوَ الاسْتِعَانَةُ، وَالإِنَابَةُ هِيَ الْعِبَادَةُ.
ترجمہ: "توکل دین کا آدھا حصہ ہے، کیونکہ دین کا دارومدار استعانت (مدد طلبی) اور عبادت پر ہے۔ توکل استعانت ہے اور انابت عبادت ہے۔"
📌 امام سعيد بن جبير رحمه الله (ت 95ھ) فرماتے ہیں:
اَلتَّوَكُّلُ عَلَى اللّٰهِ جِمَاعُ الإِيمَانِ. (سير أعلام النبلاء)
ترجمہ: "اللہ پر توکل ایمان کی بنیاد ہے۔"
اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے القاب میں سے ایک "المتوكل" بھی ہے۔ آپ کا پورا وجود اللہ پر بھروسے کا نمونہ تھا۔
لہذا اے بھائیو اور بہنو! دلوں کو اللہ پر جما لو، اسی کو کارساز سمجھو، اسی پر بھروسہ کرو۔ دنیا کے اسباب کمزور اور فانی ہیں، مگر اللہ کی قدرت کامل اور ہمیشہ باقی ہے۔
قرآن کا اعلان ہے:
﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ﴾
(الطلاق: 3)
"جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اس کے لئے کافی ہے۔"
پس آئیے! ہم اپنے دلوں کو دنیا سے ہٹا کر اللہ سے جوڑ لیں۔ اسی پر بھروسہ کریں، اسی سے مدد مانگیں اور اسی سے امید رکھیں۔ کیونکہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
آخر میں دعا ہے:
اے اللہ! ہمیں اپنا سچا متوکل بندہ بنا، ہمیں دنیا و آخرت کی فتنوں سے محفوظ فرما، ہمیں رزق حلال عطا فرما، اور اپنے سوا کسی پر بھروسہ کرنے سے بچا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں